کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 382
"وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ""کوئی بوجھ والا کسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادےگا۔"[1] بچے کی ولادت کے بعد دیکھا جائے گا کہ آیا بچے کودودھ پلانے کا کوئی بندوبست ہو سکتا ہے؟اگر کوئی بندو بست کردے تو بچہ اس کے حوالے کیا جائے گا اور عورت کو قتل کر دیا جائے گا کیونکہ اب قصاص کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ اگر بچے کو دودھ پلوانے کا انتظام نہ ہو سکے تو عورت کی سزا دو سال تک مؤخر کر دی جائے گی حتی کہ بچہ دودھ پینا چھوڑدے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " الْمَرْأَة إِذَا قَتَلَت عَمْداً فَلَا تَقْتُل حَتَّى تَضَع مَا فِي بَطْنِهَا إِن كَانَت حَامِلَاً وَحَتَّى تُكَفِّل وَلَدَهَا وَإِن زَنَت لَم تُرْجَم حَتَّى تَضَع مَا فِي بَطْنِهَا وَحَتَّى تُكَفِّل وَلَدَهَا" "اگر کوئی عورت کسی کو عمداً قتل کردے تو اسے اس وقت تک قتل نہ کیا جائے جب تک حمل کی صورت میں پیٹ میں موجود بچے کو جنم نہ دے اور بچے کی کفالت نہ کر لے۔ اسی طرح اگر زنا کا ارتکاب کرے تو حاملہ ہونے کی صورت میں جب تک بچے کو جنم نہ دےاسے رجم نہ کیا جائے۔ نیز بچے کی کفالت نہ کر لے۔"[2] اسی طرح ایک اور عورت نے جب زنا کا اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: "ارْجِعِي حَتَّى تَضَعِي مَا فِي بَطْنِكِ" "تو واپس چلی جاحتی کہ پیٹ میں موجود بچے کو جنم دے۔"[3] پھر (بچے کی ولادت کے بعد) اسے فرمایا: " ارْجِعِي حَتَّى ترْضِعِيهِ " "تو واپس جاحتی کہ بچے کو مکمل مدت تک دودھ پلالے۔"[4] درج بالا دونوں حدیثوں اور آیت قرآنی سے واضح ہوا کہ حمل کی وجہ سے عورت کو قصاص میں اس وقت تک قتل نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ بچے کو جنم نہ دے۔ اس پر علماء کا اجماع ہے۔ نیز ان احکام سے شریعت اسلامی کا کمال واضح ہوتا ہے کہ اس نے پیٹ میں موجود بچے کا کس قدر خیال رکھا ہے کہ اسے ہر قسم کی تکلیف و نقصان سے بچایا ہے بلکہ اس کی زندگی کو بچانے کے لیے سزا دینے میں تاخیر کی۔ پھر اس کی کفالت کا بندو بست کیا۔ بندوں کی مصلحتوں اور فوائد پر محیط شریعت کے مل جانے پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں۔ جب کسی سے قصاص لینے کا وقت آئے تو ضروری ہے کہ حاکم یا اس کے نائب کی نگرانی میں یہ کام ہوتا کہ قصاص
[1] ۔بنی اسرائیل:17/15۔ [2] ۔(ضعیف ) سنن ابن ماجۃ، الدیات ،باب الحامل یجب علیہا القود ،حدیث:2694۔ [3] ۔ھذامعنی الحدیث واصلہ فی صحیح مسلم، الحدود،باب من اعترف علی نفسہ بالزنی ،حدیث1695۔ [4] ۔المصدرالسابق۔