کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 377
"جس کا کوئی آدمی قتل ہو جائے اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہےتو دیت قبول کرے اور چاہے تو قصاص لے لے۔"[1] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ" "ہاں !جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع اور اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرنی چاہیے۔"[2] نیز ارشاد ہے: "وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ " "اور تمہارا معاف کر دینا تقوے کے بہت نزدیک ہے۔"[3] سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " وَلَا عَفَا رَجُلٌ عَنْ مُظْلِمَةٍ إِلَّا زَادَهُ اللّٰهُ بِهَا عِزًّا " ’’جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کا ظلم معاف کر دیا ،اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرے گا۔‘‘[4] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’دھوکے سے قتل کرنے والے کو معاف کرنا معاف نہیں کیونکہ ایسے شخص سے بچنا مشکل ہوتا ہے، جیسے محاربہ میں قتل کرے تو اسے معاف نہیں کیا جاتا۔ عام حالات میں قصاص لینے کے بجائے معاف کر دینا بہتر ہے بشرطیکہ اس میں کوئی فساد و خرابی لازم نہ آئے۔‘‘ قاضی ابو یعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور صورت بتاتے ہوئے کہاکہ ’’ اگر کسی نے مسلمانوں کے امام وامیر کو قتل کیا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرنا لازم ہے کیونکہ اس میں موجود فساد اور بگاڑ واضح ہے۔‘‘ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے قبیلہ عرنیین کے واقعے کو ملحوظ رکھ کر کہا ہے کہ’’ کسی کو دھوکے سے قتل کرنے والے پر حد نافذ کر کے قتل کیا جا ئے،یعنی اس عمل سے اسے قتل کرنا حد ہے جسے معافی کے ذریعے سے بھی ساقط نہیں کیا جا سکے گا اس میں برابر کا لحاظ بھی ضروری نہیں ۔ یہ اہل مدینہ کا مسلک ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی ایک روایت بھی اسی کے مطابق ہے۔ جبکہ شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اختیار کیا ہے اور اسی کے مطابق فتوی دیا ہے۔‘‘ مقتول کے سر پرست کے لیے قصاص لینے کا استحقاق تب ہے جب چار شرائط موجود ہوں:
[1] ۔صحیح البخاری، الدیات، باب من قتل لہ قتیل فہر بخیر النظرین، حدیث 6880۔وصحیح مسلم ،الحج، باب تحریم مکۃ و تحریم صیدھا وخلاھا۔۔۔۔۔، حدیث1355۔ [2] ۔البقرۃ:2/178۔ [3] ۔البقرۃ:2/237۔ [4] ۔صحیح مسلم، البروالصلۃ، باب استحباب العفووالتواضع، حدیث 2588ومسند احمد 2/235واللفظ لہ۔