کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 376
"وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" ’’عقل مندو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے، اس باعث تم(قتل ناحق سے) رکوگے۔‘‘ [1] امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ درج بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قصاص میں زندگی رکھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی کو یہ علم ہو گا کہ کسی آدمی کو قتل کی صورت میں قصاص کے طور پر اسے بھی قتل کیا جا سکتا ہےتو وہ قتل کرنے سے باز آجائے گا ۔اسی طرح جب ہر انسان کی یہ سوچ ہو گی تو معاشرے میں قتل کا دروازہ بند ہو جائےگا اور اس طرح ہر شخص کو زندگی مل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک طویل مضمون کو فصیح و بلیغ انداز میں اور مختصر الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یہاں پر بلاغت کا یہ نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قصاص کو زندگی قراردیا ہے،حالانکہ بظاہر وہ موت کی ایک صورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے باز رہتے ہیں ،اس طرح ان کی زندگی محفوظ رہتی ہے، پھر اس حکم میں خطاب کا رخ اہل عقل کی طرف ہے کیونکہ وہی لوگ ہیں جو نتائج اور انجام پر نگاہ رکھتے ہیں اور نقصان دہ امور اور کاموں سے خود کو بچاتے ہیں لیکن جولوگ نادان جوشیلے اور جذباتی ہوتے ہیں وہ جوش و جذبات کی رد میں بہ کر مستقبل کے عواقب و نتائج کی کوئی پروانہیں کرتے جیسا کہ ایک شاعر کا کہنا ہے: سَأَغْسِلُ عَنِّي الْعَارَ بِالسَّيْفِ جَالِبًا عَلَيَّ قَضَاءُ اللّٰهِ مَا كَانَ جَالِبَا "میں اپنے متعلق عار اور طعنوں کو تلوار کے ساتھ دھو ڈالوں گا ۔ اس حال میں کہ میں اپنے اوپر اللہ کی قضا کو لاگو کر رہا ہوں جو نافذ کرے سو کرے۔" دھو ڈالوں گا عار زمانے کی اپنی تلوار سے نہیں ہے پروا مجھ کو تقدیر کے ہر وار سے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے قصاص کا جو حکم جاری فرمایا ہے اس کی وجہ یوں بیان کی: "لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" یعنی قصاص کو ذہن نشین رکھو گے تو قتل کرنے سے باز آجاؤ گے اور یہ چیز حصول تقوی کا سبب ہے۔"[2] سنت نبویہ میں وارد ہے کہ قصاص لینے والے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ قصاص لے یا دیت قبول کرے یا قاتل کو بلا عوض معاف کر دے اور یہ افضل ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ ، فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِمَّا أَنْ يُؤَدِّيَ ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ"
[1] ۔البقرۃ:2/179۔ [2] ۔تفسیر فتح القدیر، البقرۃ: 2/179۔