کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 365
جگہ شادی کر دے یا اسے فروخت کر دے تاکہ اس کے فطری جذبات کی تسکین ہو۔ جو شخص کسی جانور، چوپائے کا مالک ہو اس پر لازم ہے کہ اسے چارہ کھلائے، پانی پلائے اور اس کی جملہ امور میں حفاظت و نگرانی کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: " عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا ، فلَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا، وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ " "ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ اس نے بلی کو باندھ کر رکھا حتی کہ وہ بھوک سے مر گئی ، نہ اس نے اسے کچھ کھلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ خود زمین کے کیڑے مکوڑے کھاپی لیتی۔"[1] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی حیوان کسی کی ملکیت میں ہے تو وہ اس کا پورا پورا خیال رکھے اور اسے بلاوجہ تکلیف نہ دے۔ اگر بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے جہنم کا عذاب ہو سکتا ہے تو دیگر حیوانات میں تو بالاولیٰ عذاب ہو گا۔ جانور کے مالک کو چاہیے کہ اس پر اس کی طاقت سے زیادہ وزن نہ ڈالے کیونکہ اس سے جانور کو تکلیف ہوتی ہے اور بلاوجہ تکلیف دینا جائز نہیں۔ مالک اپنے جانور کا دودھ اس قدر نہ دوہے کہ اس کے بچے کو تکلیف ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ " "نہ تکلیف اٹھاؤ اور نہ تکلیف پہنچاؤ۔"[2] جانور پر لعنت کرنا ،اس کے چہرے پر مارنا یا چہرے کو آگ سے داغنا حرام ہے۔ اگر جانور کا مالک جانور کی ضروریات پوری کرنے سے عاجز ہو تو اسے مجبور کیا جائے گا کہ اسے فروخت کرے یا اجرت پر دے یا پھر اسے ذبح کرے بشرطیکہ اس کا گوشت کھایا جاتا ہو کیونکہ اسے اپنی ملکیت میں برقرار رکھ کر اس کی طبعی و فطری ضروریات کو پورا نہ کرنا ظلم ہے اور ظلم کا خاتمہ ضروری ہے۔
[1] ۔صحیح البخاری المساقاۃ باب فضل سقی الماء حدیث 2364۔2365۔وصحیح مسلم، السلام، باب تحریم قتل الھرۃ ،حدیث 2242ومنار السبیل حدیث 2182واللفظ لہ۔ [2] ۔سنن ابن ماجہ، الاحکام، باب من بنی فی حقہ مایضر بجارہ ،حدیث 2340۔