کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 359
"أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ " "تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں رہتے ہو وہاں ان عورتوں کو بھی رکھو۔"[1] نیز حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں: "لَا نَفَقَةَ لَكِ ، إِلَّا أَنْ تَكُونِي حَامِلًا " "تیرے لیے کوئی نفقہ نہیں ،البتہ اگر تو حاملہ ہوتی تو تجھے نفقہ ضرور ملتا۔"[2] اس کی وجہ یہ ہے کہ" حمل"طلاق دینے والے کی اولاد ہے، لہٰذا اس کے لیے اس کے باپ پر نفقہ واجب ہے۔اب اس کی یہی صورت ہے کہ بچے کی ماں پر مال خرچ کرے۔ امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اس مسئلے پر اہل علم کا اجماع ہے، البتہ اس مسئلے میں علماء میں اختلاف یہ ہے کہ نفقہ حمل کا حق ہے یا حمل کی وجہ سے حاملہ کا۔"[3] اس اختلاف کی تفصیل اور دلائل معلوم کرنے کے لیے فقہ کی بڑی کتب کی طرف رجوع کیا جائے۔ متعدد اسباب کی وجہ سے بیوی حق نفقہ سے محروم ہو جاتی ہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں: 1۔ جب عورت کو خاوند کے پاس جانے سے روک دیا جائے تو اس کا نفقہ خاوند کے ذمے نہ رہے گا کیونکہ نفقہ فائدہ اٹھانے کے عوض میں تھا جواب حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ 2۔ جب عورت خاوند کی نافرمان ہو جائے تو اس کا "حق نفقہ"ساقط ہو جائے گا ،مثلاً: وہ شوہر کے بستر پر نہ آئے یا شوہر کے ساتھ ایسی جگہ رہائش اختیار نہ کرے جو اس کے لیے مناسب ہے یا وہ خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلتی ہو۔ 3۔ اگر عورت اپنے کسی خاص کام کے لیے سفر پر چلی گئی تب بھی اسے نفقہ نہیں ملے گا کیونکہ اس نے اپنے وجود کو خاوند سے ایسے سبب کی بنا پر دورکیا ہے جو اس کی ذات کی طرف سے تھا نہ کہ شوہر کی طرف سے۔ جس عورت کا خاوند فوت ہو گیا تو اسے خاوند کے ترکہ سے نفقہ نہیں ملے گا کیونکہ اس کے خاوند کا مال اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔اب وہ اپنے اخراجات خود برداشت کرے یا اگر تنگ دست ہوتو اس کا ولی اسے نفقہ دے گا ۔ جس حاملہ عورت کا خاوند فوت ہو گیا ہو اسے شوہر کے ترکہ میں سے حمل کا حصہ بطور نفقہ ملے گا بشرطیکہ فوت شدہ شوہر کا ترکہ ہو ورنہ حمل کا مالدار وارث حاملہ کا نفقہ برداشت کرے گا۔
[1] ۔الطلاق 65/6۔ [2] ۔سنن ابی داود، الطلاق، باب فی نفقہ المبتوتۃ حدیث: 2290۔ [3] ۔المغنی والشرح الکبیر: 9/292۔