کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 358
میں حاصل ہیں، مثلاً: اچھے معیار کا نان و نفقہ ،لباس و رہائش کی بہتر سہولتیں، گھر کا سامان اور قالین وغیرہ جو اس شہر میں معروف ہیں جہاں وہ رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر غریب عورت غریب آدمی کی بیوی ہو یا کوئی متوسط درجے کی عورت متوسط درجے کے شوہر کی بیوی ہو تو اسے اپنے شوہر کی حیثیت کے مطابق کھانے پینے اور رہن سہن کے وہ حقوق حاصل ہوں گے جو اس علاقے میں معروف ہیں جہاں ان کا بسیرا ہے۔ اگر کوئی مالدار عورت غریب شخص کے نکاح میں ہے یا کوئی غریب عورت مالدار شخص کی بیوی ہے تو اسے متوسط درجے کی ضروریات زندگی دی جائیں۔ خوراک، لباس اور رہائش کے علاوہ شوہر اپنی بیوی کو وہ اشیاء بھی مہیا کرے جو اس کی جسمانی صفائی کے لیے ضروری ہیں، مثلاً: تیل، صابن ،پینے اور طہارت حاصل کرنے کے لیے صاف پانی وغیرہ۔ مذکورہ اشیاء کا مہیا کرنا تب ہے جب عورت اس کے نکاح میں ہو اور اگر اس نے اسے طلاق دے دی ہو تو اگر طلاق رجعی ہو تو جب تک عورت عدت میں ہو اس کے اخراجات اور حقوق ادا کرنا مرد پر واجب ہیں کیونکہ وہ اس کی بیوی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ" "اور ان کے خاوند انھیں لوٹا لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔"[1] جس عورت کو طلاق بائن ہو چکی ہو اسے خاوند کی طرف سے نفقہ اور رہائش وغیرہ میں سے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو جب ان کے خاوند نے طلاق بائن دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لاَ نَفَقَةَ لَكِ وَلاَ سُكْنَى" "تجھے نہ نفقہ ملے گا اور نہ رہائش۔"[2] علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’جسے طلاق بائنہ ہو چکی ہو، اسے صحیح حدیث کے مطابق نان و نفقہ اور رہائش نہیں ملے گی بلکہ یہ مسئلہ کتاب اللہ اور قیاس کے عین مطابق ہے، نیز فقہائے محدثین کا بھی یہی مسلک ہے۔‘‘[3] اگر مطلقہ بائنہ حاملہ ہوتو اسے نفقہ ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ" "اگر وہ حمل سے ہوں تو جب تک وضع حمل نہ ہو،انھیں خرچ دیتے رہا کرو۔"[4] اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[1] ۔البقرۃ:2/228۔ [2] ۔صحیح البخاری الطلاق باب قصۃ فاطمۃ بنت قیس رضی اللّٰه عنہا حدیث 5323۔5324۔ وصحیح مسلم، الطلاق ،باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لہا، حدیث 1480واللفظ لہ۔ [3] ۔اعلام الموقعین 3/321۔ [4] ۔الطلاق:65/6۔