کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 354
اس كی وجہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کے منافع کا مالک ہے اوروہ اپنی بیوی کو سابق شوہر سے پیدا ہونے والے بچے کی پرورش سے روک سکتا ہے۔واضح رہے کہ"اجنبی شخص" سے مراد وہ ہے جو بچے کا عصبہ نہیں۔اگر عورت بچے کے کسی عصبہ(رشتے دار) سے دوسری شادی کرلیتی ہے تو بچے کا حق پرورش ماں سے ساقط نہ ہوگا۔ (4)۔اگر مذکورہ موانع زائل ہوجائیں،یعنی غلام آزاد ہوجائے،فاسق توبہ کرلے ،کافر مسلمان ہوجائے یا دوسری جگہ شادی کرنے والی عورت کو طلاق ہوجائے تو ہر ایک کو "حق پرورش" حاصل ہوجائے گا کیونکہ اب رکاوٹ موجود نہیں رہی۔ (5)۔اگر بچے کے والدین میں سے کوئی ایک طویل سفر کاارادہ رکھتا ہوتا کہ کسی دوسرے شہر یاملک میں رہائش اختیار کرے اور اس کا مقصد نقصان پہنچانا نہ ہو،راستہ اور نیا شہر یا ملک بھی پرامن ہوں تو باپ مسافر ہو یا مقیم بہرصورت پرورش کی ذمے داری اسی پر ہوگی کیونکہ بچے کی حفاظت وتربیت اور پرورش کا وہی ذمے دار ہے جبکہ وہ دور رہ کر اپنی ذمے داری کو پورا نہ کرسکے گا تو بچے کا نقصان ہوگا۔ (6)۔اگر سفر قریب شہر کا ہو کہ جس میں احکام قصر لازم نہیں ہوتے اور جانےوالے کا مقصد وہاں رہائش رکھنا ہے تو پرورش کی ذمے داری ماں پر ہوگی وہ مسافر ہو یامقیم کیونکہ وہ بہتر طور پر پرورش کرسکتی ہے۔علاوہ ازیں باپ کے لیے نگرانی کرنا بھی ممکن ہے۔ (7)۔اگر سفر کسی ضرورت کے پیش نظر ہوکہ ضرورت پوری ہونے پر واپس آجانا ہویاراستے میں خطرہ ہویا جس شہر میں جانا مقصود ہے وہاں کے حالات امن وامان کے لحاظ سے خطرناک ہیں تو پرورش کی ذمے داری مقیم پر ہوگی ،وہ والد ہویا والدہ کیونکہ ان صورتوں میں بچے کو نقصان پہنچنے کااندیشہ ہے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اگر والد نے والدہ کا حق پرورش ساقط کرنے کے لیے نقصان پہنچانے کی کوشش کی یاکوئی حیلہ سازی کی،مثلاً:سفر پر چلا گیا تا کہ بچہ اس کے پیچھے آجائے تو یہ حیلہ شریعت کے خلاف ہے کیونکہ شریعت نے بچے کی پرورش میں ماں کو باپ کی نسبت زیادہ حقدار قراردیا ہے باوجود یکہ رہائش قریب ہے اور ہر وقت ملاقات کا امکان ہے۔"[1] نیز فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا، فَرَّقَ اللّٰهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"
[1] ۔اعلام الموقعین :3/257۔