کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 352
8۔ پھر ان کےبعد خالائیں حقدار ہیں کیونکہ وہ ماں کےقائم مقام ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ " "خالہ ماں کے مرتبے میں ہے۔"[1] اس میں سگی خالہ کو ترجیح ہوگی،پھر اخیافی خالہ کا حق ہے۔اگر وہ نہ ہوتو علاتی خالہ بچے کی کفالت کرے گی جیسا کہ بہنوں کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔ 9۔ خالائیں نہ ہوں تو"حق حضانت" پھوپھیوں کی طرف چلاجاتا ہے کیونکہ وہ بچے کے ساتھ باپ کے واسطے سے تعلق رکھتی ہیں اور اس معاملے میں باپ کا درجہ ماں کے بعد ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ پھوپھی خالہ پر مقدم ہوگی۔اسی طرح باپ کے واسطے سےتعلق رکھنے والی عورتیں،مثلاً :دادیاں ان عورتوں سے مقدم ہوں گی جن کاتعلق بچے کی ماں کے واسطے سے ہے،مثلاً:نانیاں کیونکہ اولاً سرپرستی کا حق باپ کو ہے،پھراسی طرح اس کے اقارب کو۔باقی رہا ماں کو باپ پر ترجیح دینا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بچے کی مصلحتوں اور فوائد وبھلائی کو دوسروں کی نسبت زیادہ سمجھتی ہے ۔باقی رہی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کی کفالت میں خالہ کوپھوپھی پر مقدم رکھا تو اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ بچی کی پھوپھی (صفیہ رضی اللہ عنہا ) نے پرورش کرنے کامطالبہ ہی نہیں کیاتھا۔جعفر رضی اللہ عنہ نے بچی کی خالہ کانائب بن کر مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔" شیخ موصوف آگے چل کر فرماتے ہیں:"اصول شریعت باپ کے اقارب کو ماں کے اقارب پر ترجیح دیتے ہیں،لہذا جو شخص بچے کی پرورش میں اس کے برعکس کرتا ہے وہ اصول اور شریعت کی مخالفت کرتاہے۔"[2] 10۔ پھوپھیوں کے بعد حضانت کا حق بھتیجوں کو حاصل ہے۔ 11۔ پھر بھانجیاں حقدار ہیں۔ 12۔ ان کے بعد چچے کی بیٹیاں حق رکھتی ہیں۔ 13۔ پھر پھوپھیوں کی بیٹیوں کا حق ہے۔ 14۔ پھرا ن کے بعد قربت میں درجہ بدرجہ باقی عصبات کو حق حضانت حاصل ہوگا،یعنی بھائی اور ان کے بیٹے،پھر چچے،پھر ان کے بیٹے۔ (3)۔جس کی پرورش وکفالت مقصود ہے اگر وہ لڑکی ہے تو پرورش کرنے والے مرد کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اس کا محرم
[1] ۔صحیح البخاری، الصلح، باب کیف یکتب: ھذا ما صالح فلان بن فلان وفلان بن فلان۔۔۔؟حدیث 2699۔ [2] ۔مجموع الفتاویٰ:34/122۔123۔