کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 348
ہوگا اور نہ ولی بن سکے گا کیونکہ نسب رضاعت سے قوی تر ہوتا ہے۔دونوں میں برابری ان امور میں مسلم ہوگی جن میں شریعت کی نص وارد ہوئی ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ (7)۔جس طرح دودھ پینے والا لڑکا اور لڑکی عورت کے بچے کہلائیں گے جس کاانھوں نے دودھ پیا ہے اسی طرح عورت کے دودھ کے مالک،یعنی خاوند یا آقا کے بھی بچے کہلائیں گے کیونکہ دودھ پلانے والی عورت بوقت رضاعت اس کے نکاح میں یا اس کی ملکیت میں تھی،لہذا مذکورہ احکام عورت کے خاوند یا آقا اور دودھ پینے والے کے درمیان بھی جاری وساری ہوں گے،مثلاً:دودھ پینے والی لڑکی ہے تو دودھ پلانے والی عورت کے خاوند یا لونڈی ہوتواس کے مالک کے ساتھ اس کا نکاح حرام ہوگا۔ان کا ایک دوسرے کو دیکھنا جائز ہوگا اور خلوت میں ان کی ملاقات مباح ہوگی۔ (8)۔نسب میں جو رشتے محرم ہیں،رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے محرم بن جاتے ہیں،مثلاً:جس عورت سے رضاعت ثابت ہوئی ہوتو اس کا باپ ،دادا،اولاد،ماں،نانی،بہنیں،چچے،پھوپھیاں،ماموں،خالائیں دودھ پینے والے کے محرم ہیں۔اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کے خاوند کے تمام رشتے دار رضاعی بیٹے،بیٹی کے لیے محرم ہیں۔ (9)۔جس طرح دودھ پینے والے بچے کے لیے یہ حرمت ثابت ہوتی ہے اسی طرح اس بچے کی اولاد یا اولاد کی اولاد پر بھی حرمت ثابت ہوگی الا یہ کہ وہ اصول(باپ،دادا) وحواشی(بھائی وغیرہ) ہوں،لہذا اس بچے کے اوپر درجے کے اقارب،یعنی آباءواجداد،مائیں،چچے،ماموں اورخالاؤں کے لیے حرمت ثابت نہ ہوگی،جیسا کہ اس کے برابر کے درجے کے حواشی کے لیےحرمت ثابت نہیں ہوتی،یعنی بچے کے دوسرے بہن بھائی اس رضاعی ماں یا رضاعی باپ کے محرم نہیں ہوں گے۔ (9)۔جس بچے نے ایسی عورت کادودھ پیا جس سے باطل طریقے یا زنا سے وطی کی گئی تو وہ بچہ صرف دودھ پلانے والی کا بیٹا کہلائے گا کیونکہ جب مرد کا نسب کے اعتبار سے باپ ہونا ثابت نہیں تو رضاعت سے بھی باپ ثابت نہ ہو گا کیونکہ رضاعت نسب کی فرع ہے۔ (10)۔ایک جانور کا دودھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی،مثلاً:کسی بچے اور بچی نے ایک جانور کادودھ پیا ہے تو اس بنیاد پر ان کا آپس میں نکاح حرام نہ ہوگا۔ (11)۔اگر بچے نے کسی عورت کاایسا دودھ پیا جو وطی اور وضع حمل کے بغیر اتر آیا تو اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ایک رائے یہ ہے کہ وہ حرمت کاباعث نہیں کیونکہ وہ حقیقتاً دودھ ہی نہیں بلکہ وہ نکلنے والی ایک رطوبت ہے،نیز