کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 344
استبرائے رحم کا بیان استبرائے رحم کا مطلب یہ ہے کہ لونڈی کے حصول کے بعد اور اس سے جماع کرنے سے پہلے کچھ وقت انتظار کرنا تاکہ اس کے رحم میں حمل ہونے یا نہ ہونے کی صورت حال واضح ہو جائے۔ جس نے کوئی لونڈی خریدی یا اسے ہبہ کی گئی یا قیدی بنی اور پھر اسے حاصل ہو گئی اور وہ وطی کے قابل ہو تو اس سے وطی و استفادہ تب تک حرام ہے جب تک استبرائے رحم (رحم کے خالی ہونے ) کا یقین نہ ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْقِي مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ " "جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لائق نہیں کہ وہ کسی کی کھیتی کو اپنا پانی دے۔"[1] ایک روایت میں ہے: "لَا تُوطَأُ حَامِلٌ حَتَّى تَضَعَ " "حاملہ (لونڈی)سے وطی نہ کی جائے جب تک اس کے ہاں ولادت نہ ہو جائے۔"[2] حاملہ لونڈی کا "استبرا"وضع حمل سے ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان عام ہے۔ "وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ " "اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے۔"[3] اگر وہ حاملہ نہیں اور اسے حیض آتا ہے تو ایک حیض کا آنا "استبرائے رحم" کے لیے کافی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوطاس کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا تھا: "لَا تُوطَأُ حَامِلٌ حَتَّى تَضَعَ وَلَا غَيْرُ ذَاتِ حَمْلٍ حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً" ’’حاملہ سے وطی نہ کی جائے حتی کہ وہ حمل کو جنم دے اور غیر حاملہ سے وطی نہ کی جائےحتی کہ اسے ایک مرتبہ
[1] ۔ جامع الترمذی ،النکاح ، باب ماجاء فی الرجل یشتری الجاریہ وھی حامل، بلفظ: "وَلدَ غَيْرِهِ" حدیث1131 ومسند احمد 4/108وسنن ابی داؤد بلفظ( لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ....) النکاح باب فی وطء السبایا ،حدیث: 2158۔ [2] ۔سنن ابی داود، النکاح ،باب فی وط ء السبایا ،حدیث 2157۔ [3] ۔الطلاق 65/4۔