کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 343
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انھوں نے مفقود (گم شدہ) کی بیوی کو چار سال انتظار کرنے کا حکم دیا ، اس کے بعد اس کو شادی کی اجازت دی ،کچھ مدت بعد گم شدہ خاوند واپس آگیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس مرد کو اختیار دیا کہ وہ اپنی بیوی کو لوٹا ئےیا حق مہر واپس لے لے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "المسائل "میں فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے سنا وہ فرماتے ہیں:"مجھے اس مسئلے میں کوئی شک نہیں کیونکہ پانچ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ فتوی دیا ہے کہ وہ (چار سال)انتظار کرے۔"[1] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول سب سے صحیح قول ہے اور عقل کے زیادہ قریب ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ یہی قول درست ہے۔‘‘ جب ایسی عورت کی عدت گزر جائے تو کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا مباح ہو جا تا ہے۔عورت کو عدت وفات کے بعد گم شدہ شخص کے ولی سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں ۔اگر اس نے دوسری جگہ شادی کر لی۔ پھر اس کا پہلا شوہر آگیا تو اسے اختیار ہے کہ وہ شوہر ثانی سے طلاق کا مطالبہ کرے یا اپنی بیوی کو اس شخص کے نکاح میں رہنے دے اور اپنا ادا شدہ حق مہر واپس لے لے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ پہلے شوہر کی واپسی دوسرے شوہر کے جماع کرنے کے بعد ہو یا پہلے ہو۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’گم شدہ شخص کی بیوی کی عدت کے بارے میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذہب درست ہے اور وہ یہ کہ اولاً چار سال گزارے، پھر (قاضی کے فیصلے کے بعد) عدت وفات چار ماہ دس دن پورے کرے۔ اس کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے۔ نکاح کی صورت میں ظاہر و باطن دوسرے شخص کی بیوی ہو گی پہلے گم شدہ شخص کی نہیں، دوسرے آدمی سے نکاح کر لینے کے بعد اگر عورت کا پہلا شوہر لوٹ آیا تو اسے اختیار ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو دوبارہ حاصل کرے یا اس سے ادا شدہ حق مہر واپس لے اور اسے دوسرے آدمی کے نکاح میں رہنے دے۔ شوہر ثانی نے اس عورت سے مجامعت کر لی ہو یا نہ کی ہو، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ظاہر مذہب یہی ہے۔‘‘ شیخ موصوف فرماتے ہیں:"شوہر اول کو عورت اور مہر کے بارے میں جو اختیار دیا گیا ہے ،وہ عدل و انصاف سے پوری طرح مطابقت وموافقت رکھتا ہے۔"[2]
[1] اعلام الموقعین:2/49۔ [2] ۔الفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ ،العدد :5/511۔512۔