کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 338
"تم ایک دوسری کے ساتھ باتیں کرنے کے لیے (دن کے وقت) اکٹھی ہو سکتی ہو لیکن جب سونے کا ارادہ ہو تو ہر ایک اپنے گھر واپس آجائے۔"[1] 4۔ عدت وفات کے احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ عورت عدت وفات میں"سوگ"کی کیفیت میں رہے، اپنی ایسی صورت حال اور وضع قطع نہ بنائے کہ حسن و زیبائش اور بناؤسنگھار کیے ہوئے ہوکہ دعوت نظارہ دے رہی ہو۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"یہ شریعت مطہرہ کے محاسن اور حکمتوں میں سے ہے اور اس بات کی دلیل بھی ہے کہ شریعت میں بندوں کی ضروریات کا بدرجہ اتم لحاظ اور خیال رکھا گیا ہے۔ میت پر سوگ منانا موت کی گھناؤنی مصیبت کی وجہ سے ہے جس میں زمانہ جاہلیت کے لوگ انتہائی مبالغہ کرتے تھے یہاں تک کہ سوگ والی عورت حالت سوگ میں ایک سال تک تنگ و تاریک مکان میں رہتی جو گھر سے الگ تھلگ ہوتا تھا، وہ نہ خوشبو وغیرہ استعمال کرتی اور نہ وہ غسل کرتی تھی ،اس کے علاوہ ایسے امور انجام دیتی جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کی تقدیر پر ناراضی کا اظہار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و حکمت سے یہ(غلط)طریقہ باطل قراردیا اور اس کے بجائے ہمیں صبراور شکر کی تعلیم دی اور ایسے موقع پر " إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ " کہنے کا حکم دیا ہے۔ چونکہ موت سے انسان کو گہرا دکھ، حزن و ملال اور تکلیف پہنچتی ہے اور انسانی طبیعت کے یہ عین مطابق ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ حکیم و خبیر نے عورت کو کچھ گنجائش عطا کی کہ وہ خاوند کے سوا کسی دوسری میت پر تین دن تک سوگ منا کر اپنے غم کو ہلکا کر سکتی ہے۔ اس سے زیادہ وقت سوگ میں گزارنا چونکہ خرابی اور نقصان کا باعث تھا ،اس لیے اس سے روک دیا گیا ۔گویا کہ عام میت پر سوگ تین دن ہو گا اور خاوند پر سوگ مہینوں کے حساب سے ہوگا۔ مقصد یہ ہے کہ عورت کی کم عقلی اور بے صبری کی بنا پر اسے قریبی رشتے داروں کے مرنے پر تین دن تک سوگ منانے کی اجازت دی گئی ہے اور خاوند کی موت پر سوگ محض سوگ ہی نہیں بلکہ عدت بھی ہے۔ چونکہ عورت کو خاوند کی موجودگی میں خوشبو وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ذریعے سے وہ خاوند سے محبت کا اظہار کرتی ہے۔ جب وہ فوت ہوگیا تو اس کی ضرورت نہ رہی اور چونکہ وہ عورت ابھی پہلے خاوند کی وفات کی عدت گزاررہی ہے اور کسی دوسرے خاوند کے عقد میں نہیں گئی تو اس کا تقاضا ہے کہ وہ ابھی پہلے خاوند (کی عدت) کا حق پورا کرے اور عدت مکمل کرنے تک ایسے تمام امور ترک کیے رکھے جنھیں بیویاں اپنے خاوندوں کے لیے بجالاتی
[1] ۔(ضعیف) منارالسبیل، ص:612۔613۔حدیث 2135۔والسنن الکبری للبیہقی 7/436۔تاہم شدید ضرورت کے پیش نظر عورت گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔