کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 335
ایام حیض ختم ہو چکے ہوں یا ایسی کمسن ہو کہ حیض شروع نہ ہوا ہواور جس کا حیض بند ہو جائے اور معلوم نہ ہو کہ کیوں بند ہوا۔ (6)وہ عورت جس کا خاوند گم ہو جائے۔ حاملہ وضع حمل تک عدت گزارے گی۔ اس کی علیحدگی کا سبب خاوند کی طلاق ہویا اس کی وفات۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ " "اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔"[1] آیت کریمہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے، چاہے اس کا خاوند فوت ہوا ہو یا اس نے زندگی ہی میں اسے طلاق کے ذریعے سے الگ کر دیا ہو۔ بعض سلف صالحین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایسی حاملہ عورت جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو، وہ دو عدتوں ،یعنی وضع حمل یا چارماہ دس دن میں سے جو عدت لمبی ہو اس کے مطابق عدت گزارے گی، البتہ بعد میں علماء کا اتفاق ہو گیا کہ وضع حمل کے بعد عدت لازماً ختم ہو جاتی ہے۔ واضح رہے ہر وضع حمل سے عدت ختم متصور نہیں ہوگی بلکہ یہاں وضع حمل سے مراد یہ ہے کہ بچے کی پیدائش اس حال میں ہوئی ہوکہ اس میں انسانی صورت واضح ہو۔ اگر عورت کے رحم سے ایسی چیز نکلی ہو جو بچے کے بجائے گوشت کا لوتھڑا محسوس ہوتی ہو، جس میں انسان کی خلقت واضح نہ تھی تو حاملہ کی عدت ختم نہ ہو گی۔ اسی طرح عدت اس حمل کے وضع سے ختم ہو گی جو الگ کرنے والے شوہر سے ہو۔ اگر حمل طلاق دینے والے شوہر کا نہ ہو،یعنی شوہر اپنی عمر کے اعتبار سے اس قدر چھوٹا ہو کہ بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں یا اسے پیدائشی اور تخلیقی کمزوری ہے جس کی بنا پر بچہ پیدا کرنے کی اس میں اہلیت نہیں یا عورت نے عقد نکاح سے چھ ماہ سے پہلے ہی بچہ جن دیا جو زندہ ہے تو اس سے اس کی عدت کی مدت ختم نہ ہوگی کیونکہ بچے کا نسب اپنے باپ سے نہیں ملتا۔ حمل کی کم ازکم مدت چھ ماہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْرًا" "اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔"[2] نیز فرمان الٰہی ہے: "وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ " "مائیں اپنی اولادوں کو دو سال کامل دودھ پلائیں۔"[3] اگر تیس ماہ کی مدت میں سے"مدت رضاعت"24ماہ(دوسال)منفی کردیں تو باقی چھ ماہ ہی رہ جاتے ہیں جو کہ
[1] ۔الطلاق:65/4۔ [2] ۔الاحقاف:46/15۔ [3] ۔البقرۃ:2/233۔