کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 334
نادم ہے تو رجوع کر لے، نیز عدت میں عقد نکاح کی حرمت واحترام بھی پنہاں ہے اور طلاق دینے والے شوہر کے حق کی تعظیم بھی ہے۔ اگر عدت گزارنے والی حاملہ ہے تو اس کے حمل کے حق میں حفاظت بھی ہے۔ الغرض عدت نکاح کی حرمت و عزت کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ عدت ہر اس عورت پر لازم ہے جو اپنے شوہر سے الگ ہو۔ مفارقت کی وجہ طلاق ہو یا خلع ،فسخ نکاح ہو یا شوہر کی وفات لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے شوہر نے اس سے خلوت و مجامعت کی ہو، خواہ بیوی آزاد ہو یا لونڈی ۔ اسی طرح وہ بالغ ہو یا ایسی نابالغ کہ اس جیسی سے مجامعت ہو سکتی ہو۔ اگر کسی نے اپنی زندگی میں بیوی کو مجامعت کیے بغیر طلاق دے کر الگ کر دیا تو اس عورت پر عدت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا" "اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو، پھر تم انھیں ہاتھ لگانے سے قبل(ہی) طلاق دے دو تو ان پر تمہارے لیے کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو۔"[1] آیت میں کلمہ:" تَمَسُّوهُنَّ" سے مراد"جماع"ہے، لہٰذا آیت مذکورہ سے واضح ہوا کہ جس عورت کو مجامعت سے قبل طلاق دی گئی ہو اس پر عدت نہیں۔ اہل علم کا اس مسئلے پر اجماع ہے۔ واضح رہے آیت میں کلمہ: "الْمُؤْمِنَاتِ" کا استعمال تغلیباً ہوا ہے کیونکہ اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہ حکم جس طرح مومنہ عورت کے لیے ہے اسی طرح اہل کتاب سے تعلق رکھنے والی عورت کے لیے بھی ہے۔ جس عورت کا شوہر فوت ہو گیا ہو، اس کی وفات بیوی سے مجامعت سے قبل ہو یا اس کے بعد دونوں صورتوں میں عورت پر عدت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : "وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا " "تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں۔"[2] میں عموم ہے اور آیت کے حکم میں تخصیص کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے۔ عدت گزارنے والی خواتین کی چھ قسمیں ہیں:(1)حاملہ عورت (2)وہ عورت جس کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حاملہ نہ ہو(3)غیر حاملہ جسے حیض آتا ہو۔(4)مطلقہ جسے حیض نہ آتا ہو۔(5)بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے جس کے
[1] ۔الاحزاب:33/49۔ [2] ۔البقرۃ:2/234۔