کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 331
مکمل ہونے سے پہلے بھی بچہ جنے گی تو اس بچے کے ساتھ نسب ثابت ہو گا کیونکہ رجعیہ عورت بیوی کے حکم میں ہوتی ہے، لہٰذا طلاق کے بعد بھی وہ طلاق سے پہلے والے حکم میں ہے۔ جن امور کی بنیاد پر لونڈی کے پیٹ سے جنم لینے والے بچے کا نسب اس کے آقا سے ملایا جاتا ہے درج ذیل ہیں۔ اولاً یہ کہ آدمی اعتراف کرے کہ اس نے اپنی لونڈی سے وطی کی تھی یا اس کے وطی کرنے پر واضح دلیل گواہ وغیرہ مل جائے۔ ثانیاً یہ کہ جس وطی کا اعتراف ہوا یا اس پر دلیل ملی، عورت اس کے چھ ماہ بعد یا اس سے زیادہ مدت میں بچے کو جنے تو اس مولود کا نسب اس شخص سے ملایا جائے گا کیونکہ اس کا صاحب فراش ہونا ثابت ہو چکا ہے،لہٰذا وہ حدیث: " الْوَلَدُ لِلفِراشِ "بچہ اس بستر والے کے لیے ہے جس کے گھر وہ پیدا ہوا۔"[1]کے عمومی حکم میں شامل ہے۔ اسی طرح اگر مالک نے اپنی لونڈی سے وطی کرنے کا اعتراف کیا،پھر اسے بیچ دیا یا آزاد کر دیا اور اس عورت نے وقت بیع یا وقت آزادی سے چھ ماہ گزرنے سے پہلے بچے کو جنم دیا جو زندہ رہا تو اس مولود کا نسب آقا(اعتراف کرنے والے)کے ساتھ ملایا جائے گا کیونکہ کم ازکم مدت حمل چھ ماہ ہوتی ہے۔ جب اس نے چھ ماہ گزرنے سے پہلے ہی بچے کو جنم دیا تو سمجھا جائے گا کہ عورت فروخت ہونے یا آزاد ہونے سے قبل ہی حاملہ تھی، لہٰذا مالک صاحب فراش قرارپائے گا اور "الْوَلَدُ لِلفِراشِ "کے تحت بچے کا والد وہی ہو گا۔ دو حالتوں میں بچے کا نسب خاوند کے ساتھ نہ ملے گا: 1۔ جب بیوی نے اپنے خاوند کے نکاح میں آنے کے چھ ماہ سے پہلے ہی بچہ جنا جو زندہ رہا کیونکہ اس قلیل مدت میں قطعاً امکان نہیں کہ وہ نکاح کے بعد حاملہ ہواور اس میں بچے کو جنم دے (اور وہ زندہ بھی رہے)، لہٰذا یہی سمجھا جائے گا کہ عورت نکاح سے پہلے ہی حاملہ تھی۔ 2۔ جب آدمی نے بیوی کو طلاق بائن دی ،پھر عورت نے وقت طلاق سے لے کر چار سال کی مدت کے بعد بچہ جنا تو بچے کا نسب طلاق دینے والے کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا کیونکہ عورت نے بچے کو زیادہ سے زیادہ مدت حمل کے بعد جنا ہے، لہٰذا سمجھا جائے گا کہ بچہ طلاق دینے والے سے پیدا نہیں ہوا۔ جب مالک نے لونڈی سے وطی کے بعد استبرائے رحم کا دعوی کیا۔ پھر لونڈی نے ایک مدت کے بعد بچے کو جنم دیا تو اس مولود کا نسب مالک کے ساتھ نہ ملایا جائے گا کیونکہ اسے استبرائے رحم کا یقین تھا، لہٰذا یہ بچہ کسی اور شخص کا سمجھا جائے گا۔ واضح رہے استبرائے رحم ایک مخفی امرہے جس پر فیصلہ دینا انتہائی مشکل امر ہے،لہٰذا اس کے دعوے کو قسم
[1] ۔صحیح البخاری، الحدود،باب للعاہر الحجر حدیث:6818۔