کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 330
مندرجہ ذیل صورتوں میں بچے کو اسی شخص کی جائز اولاد تسلیم کیا جائے گا جس کی بیوی یا لونڈی سے وہ پیدا ہوا ہے: 1۔ عورت اپنے خاوند کے نکاح میں ہو اور وہ اس وقت سے لے کر جس میں جماع کرنے کا امکان تھا کم ازکم چھ ماہ کی مدت میں بچہ جنے۔ اس عرصے میں مرد بیوی کے پاس موجود ہو یا غائب ہو۔ اس صورت میں بچے کا اس شخص سے ہونا ممکن الثبوت ہے اور اس کے منافی کوئی قوی قرینہ موجود نہیں۔ 2۔ عورت اپنے خاوند کے نکاح میں نہ رہی ہو،یعنی خاوند نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی ہو اور عورت وقت علیحدگی سے لے کر چار سال سے کم مدت میں بچے کو جنم دے تو بچے کو سابقہ خاوند کی جائز اولاد تسلیم کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت چار سال ہی ہوتی ہے، لہٰذا اگر عورت نے چار سال سے کم مدت میں بچہ جنا تو قوی امکان ہے کہ بچہ اسی کا ہے جس نے اسے طلاق دے کر الگ کیا تھا، لہٰذا اس بچے کا نسب اس سے ملایا جائے گا۔ ان دو حالتوں میں بچے کو موجود ہ یا طلاق دینے والے شوہر کے ساتھ ملانے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ دونوں بچہ پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہوں ،یعنی ان کی عمر دس سال یا اس سے زائد ہو کیونکہ ارشاد نبوی ہے: "مُرُوا أَوْلادَكُمْ بِالصَّلاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْر سنين ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ " "اپنے بچوں کو نماز کا حکم کرو جب ان کی عمریں سات سال ہوں اور جب ان کی عمردس سال ہو جائے اور نماز نہ پڑھیں تو ان کو مارو اور ان کے بستر جدا جدا کر دو۔"[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمر کے بچوں کو الگ الگ سلانے کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عمر میں وطی ممکن ہے جس کے نتیجے میں اولاد پیدا ہو سکتی ہے۔ ثابت ہوا کہ دس سال کے لڑکے کو باپ تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اس عمر میں اگرچہ اس پر بلوغت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ بالغ ہونا تو بلوغت کی علامات سے ثابت ہوتا ہے اور یہاں نسب کے الحاق کے لیے وطی کے امکان کو کافی سمجھا گیا ہے۔ کیونکہ اس سے نسب کی حفاظت بھی ہو تی ہے اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے۔[2] 3۔ جب کسی نے اپنی بیوی کو رجعی طلاق دی ،پھر وقت طلاق سے لے کر چار سال گزرنے پر اور عدت ختم ہونے سے پہلے اس نے بچے کو جنم دیا تو نو مولود کا نسب طلاق دینے والے آدمی سے ملایا جائے گا۔ اسی طرح اگرچار سال
[1] ۔سنن ابی داؤد ،الصلاۃ، باب متی یومر الغلام بالصلاۃ ،حدیث 495۔ [2] ۔مؤلف کے استدلال کو جمہور علماء نے تسلیم نہیں کیا، لہٰذا یہ محل نظر ہے۔(صارم)