کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 325
حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: {قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا}الي الفرض، فقَالَ: " يُعْتِقُ رَقَبَةً " قَالَتْ: لَا يَجِدُ، قَالَ: " فَيَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ! إِنَّهُ شَيْخٌ كَبِيرٌ مَا بِهِ مِنْ صِيَامٍ، قَالَ: " فَلْيُطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا " قَالَتْ: مَا عِنْدَهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَصَدَّقُ بِهِ ، قَالَتْ: فَأُتِيَ سَاعَتَئِذٍ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللّٰهِ ، فَإِنِّي أُعِينُهُ بِعَرَقٍ آخَرَ، قَالَ: " قَدْ أَحْسَنْتِ اذْهَبِي فَأَطْعِمِي بِهَا عَنْهُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ،وَارْجِعِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ " "میرے خاوند اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ظہار کیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور خاوند کی شکایت کی۔ میں آپ سے بحث و تکرار کرنے لگی تو آپ نے فرمایا:"خولہ !اللہ تعالیٰ سے ڈرو،وہ تو تیرے چچے کا بیٹا ہے۔"میں ابھی وہیں تھی کہ قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں۔’’یقیناً اللہ نے اس عورت کی بات سنی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی ۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تیرا خاوند ایک غلام آزاد کرے۔"حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے۔"وہ کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! وہ تو بہت بوڑھا ہے، اس میں روزے رکھنے کی قوت کہاں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔"وہ کہنے لگیں :اس کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ وہ فرماتی ہیں: اسی دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لا یا گیا تو میں نے کہا:اے اللہ کے رسول !ایک ٹوکرا میں بھی اسے دےدوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بہت بہتر ہے۔ جاؤ ! اس کی جانب سے یہ ساٹھ مساکین کو کھلا دو اپنے چچے کے بیٹے (خاوند)سے کہو کہ وہ تجھ سے تعلقات بحال کرے۔"[1] الحمدللہ!ہمارا دین ایک عظیم دین ہے جس میں ہر مشکل کا حل ہے۔ اسی طرح اس میں ازدواجی تعلقات کا حل بھی ہے جیسا کہ یہاں ظہار کا مسئلہ بیان ہوا ہے۔ ظہار زمانہ جاہلیت میں بھی بہت بڑی مشکل اور مصیبت تھی جس کا نتیجہ زوجین کی جدائی اور خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں نکلتا تھا تو یہ دین کس قدر عظیم ہے! علاوہ ازیں کفارے میں خاوند کی استعداد گنجائش بھی ملحوظ رکھی گئی ہے کہ وہ غلام آزاد کرنے، روزے رکھنے یا کھانا کھلانے میں سے جس کی طاقت رکھے اسے سرانجام دے۔الحمدللّٰه علي ذلك
[1] ۔سنن ابی داؤد،الطلاق، باب فی الظہار حدیث2214۔