کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 324
لہٰذا ظہار کا کفارہ بھی اس پر قیاس کیا جائے گا۔ مطلق مقید پر محمول ہو گا، نیز غلام یا لونڈی کا تندرست اور صحت مند ہونا بھی شرط ہے، یعنی اس میں کسی قسم کا کوئی عیب نہ ہو جو اس کے کام کاج اور عمل کے لیے واضح طور پر رکاوٹ کا سبب ہو کیونکہ آزاد کرنے کا مقصد غلام یا لونڈی کو اپنے مفادات کا مالک بنانا ہے اور اپنی ذات میں اسے مکمل اختیار دینا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب وہ تندرست ہو اور جسمانی نقص وعیب سے سلامت ہو، مثلاً :اندھا ہونے یا ہاتھ پاؤں کے لحاظ سے معذور ہونے سے سلامت ہو۔ کفارۂ ظہار میں روزے رکھنے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ : 1۔ غلام یا لونڈی آزاد کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو۔ 2۔ وہ مسلسل روزے رکھے، ناغہ نہ کرے الایہ کہ کوئی فرض روزہ آجائے ،مثلاً رمضان کے روزے شروع ہو جائیں یا ایسا دن آجائے جس میں روزہ چھوڑنا واجب ہو۔ مثلاً: عیدکا دن یا ایام تشریق کا آجانا یا کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑنا مباح ہو، مثلاً:سفر یا مرض ۔ان ایام و احوال میں روزہ نہ رکھنے سے تسلسل میں خلل واقع نہ ہو گا۔ 3۔ کفارے کے روزے کی رات کو نیت کرے۔ اگر کھانا کھلانے کی صورت میں کفارہ دینا ہو تو اس کی درستی کے لیے درج ذیل شرائط ہیں: 1۔ روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو۔ 2۔ جسے کھانا کھلایا جائے وہ مسکین ،مسلمان اور آزاد ہو جس کو زکوۃدینا درست ہو۔ 3۔ ہر مسکین کو جو کھانا دیا جائے گا اس کی مقدار ایک"مد"(نصف کلو) گندم یا کسی دوسری شے سے نصف"صاع"(ایک کلو) سے کم نہ ہو۔ کفارے کی درستی کے لیے نیت کا ہونا شرط ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى" ’’اعمال کادارومدارنیتوں پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی اس نےنیت کی۔‘‘[1] کفارۂ ظہار میں ترتیب کی دلیل آیت مذکورہ کے علاوہ سنت مطہرہ میں سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا کا قصہ ہے۔ وہ فرماتی ہیں: " ظَاهَرَ مِنِّي زَوْجِي أَوْسُ بْنُ الصَّامِتِ فَجِئْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْكُو إِلَيْهِ وَرَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَادِلُنِي فِيهِ وَيَقُولُ: " اتَّقِي اللّٰهَ فَإِنَّهُ ابْنُ عَمِّكِ " فَمَا بَرِحْتُ
[1] ۔صحیح البخاری، بدءالوحی، باب کیف کان بدءا لوحی الی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم، حدیث:1۔