کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 320
تک کے لیے جماع نہ کرنے کی قسم اٹھالے یا جماع کرنے کے لیے کوئی ایسی شرط عائد کرے جس کے حصول کی توقع چار ماہ تک نہ کی جا سکتی ہو۔ مثلاً: نزول عیسیٰ علیہ السلام کی شرط یا دجال کے نکلنے کی شرط تو ان صورتوں میں ایلاء کا حکم جاری ہو گا۔ اسی طرح اگر کسی نے اپنی بیوی پر ایسی شرط عائد کر دی جس کا کرنا حرام ہو یا اس کا چھوڑنا واجب ہو، مثلاً:کوئی کہے:"اللہ کی قسم! میں تجھ سے اس وقت تک جماع نہیں کروں گا جب تک تو نماز چھوڑنہیں دیتی۔ یا شراب نہیں پیتی تو اس صورت میں شوہر کا ایلاء ہی ثابت ہوگا کیونکہ اس نے شرعاً ممنوع کام کی شرط لگائی ہے جو حسی ممنوع کے مشابہ ہے۔ ان مذکورہ احوال میں ایلاء کی مدت مقرر ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ " ’’جو لوگ اپنی بیویوں سے (تعلق نہ رکھنے کی) قسمیں کھائیں، ان کے لیے چار مہینے کی مدت ہے۔‘‘[1] سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انھوں نے فرمایا: چار ماہ سے زیادہ مدت کی قسم کھانے کی صورت میں جب چار ماہ گزر جائیں تو اس ایلاء کرنے والے کو کسی مجلس یا پنچایت میں کھڑا کر کے بیوی کو طلاق دینے کا کہا جائے گا۔ واضح رہے طلاق دینے ہی سے طلاق واقع ہوگی محض ایلاء سے طلاق نہیں ہوتی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں چودہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی مسلک بیان کیا ہے۔جناب سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ میں دس سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ملا جو یہی نقطہ نظر رکھتے تھے کہ ایلاء کرنے والے کو مجلس میں کھڑا کیا جائے گا۔ جمہور علماء کا بھی یہی مسلک ہے جیسا کہ آیت کریمہ کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے۔ جب ایلاء کے چار ماہ گزر جائیں(واضح رہے کہ اس مدت میں وہ ایام شمار نہ ہوں گے جن میں عورت کو عذر لاحق ہو) تو: 1۔ اگر اس نے اپنی بیوی سے وطی کر لی تو سمجھ لیا جائے گا کہ اس نے قسم سے رجوع کر لیا ہے کیونکہ جماع کرنا "رجوع" کا نام ہے۔ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر علماء کا اجماع بیان کیا ہے۔ اور آیت کے الفاظ: "فَإِن فَاءُوا "میں فاء کے معنی ایسے کام کی طرف رجوع کرنے کے ہیں جسے ترک کر دیا گیا تھا۔ اور اس طرح عورت خاوند سے اپنا حق وصول کر لیتی ہے۔ 2۔ اگر اس نے(مدت مذکورہ کے بعد ) بھی جماع کرنے سے انکار کر دیا تو حاکم یا قاضی اسے طلاق دینے کا حکم دے گا بشرطیکہ عورت مطالبہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] ۔البقرۃ:2/228۔