کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 316
6۔ رجوع کو کسی شرط کے ساتھ مشروط قراردینا درست نہیں،مثلاً: کوئی کہے:"جب فلاں مقصد حاصل ہوگا تو تجھ سے رجوع کر لوں گا۔" کیا رجوع کے لیے یہ شرط ہے کہ زوجین کا ارادہ اصلاح کا ہو؟ بعض علماء کے نزدیک یہ شرط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا " "اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو۔"[1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"رجوع کی اجازت اسی کو دی جائے گی جو اصلاح کا ارادہ کر کے بیوی کو اچھے طریقے سے رکھنا چاہتا ہو۔‘‘ [2] بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اصلاح احوال کا عزم شرط نہیں کیونکہ آیت اصلاح احوال کی طرف رغبت دلاتی ہے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے سے روکتی ہے، شرط عائد نہیں کرتی۔ ہمیں پہلی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ رجوع کے لیے کوئی مخصوص کلمہ نہیں ہے بلکہ کوئی بھی ایسا کلمہ کہا جاسکتا ہے جو رجوع پر دلالت کرے، مثلاً: ’’میں نے بیوی سے رجوع کر لیا۔‘‘یا’’ میں نے اس کو واپس لے لیا۔‘‘یا ’’ میں نے اسے اپنے ہاں روک لیا۔‘‘وغیرہ ۔اسی طرح رجوع کی نیت سے بیوی سے مجامعت کر لی تو صحیح قول کے مطابق اسے رجوع پر محمول کیا جائےگا۔ مناسب یہ ہے کہ بوقت رجوع کسی کو گواہ بنالیا جائے بلکہ بعض علماء کے نزدیک رجوع کے موقع پر کسی کو گواہ بنانا واجب ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ " ’’اوراپنے میں سے دوعادل شخصوں کوگواہ مقرر کر لو۔‘‘ [3] امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک روایت اسی رائے کے حق میں ہے۔ شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’رجوع کے معاملے کو خفیہ رکھنا کسی حالت میں بھی درست نہیں ہے۔‘‘ [4] جس عورت کو رجعی طلاق ہو جب تک وہ عدت میں ہے طلاق دینے والے کی بیوی ہے۔ خاوند کے ذمے ہے کہ وہ اسے نان و نفقہ دے، لباس و رہائش دے اور بیوی کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں رہے اور خاوند کو مائل کرنے کے لیے زینت و زیبا ئش کا اہتمام کرے۔ طلاق رجعی کی عدت کے دوران میں زوجین میں سے کوئی ایک فوت ہو گیا تو دوسرا اس کا وارث ہو گا۔ دوران عدت میں دونوں اکٹھے سفر کر سکتے ہیں، خلوت اختیار
[1] ۔البقرۃ:2/228۔ [2] ۔۔الفتاوی الکبری ،الاختیارات العلمیہ، باب الایلاء: 5/504۔ [3] ۔الطلاق65/2۔ [4] ۔الفتاوی الکبری، الاختیارات العلمیہ، الرجعۃ: 5/503۔