کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 314
رجوع کا بیان جس عورت کو ایک یا دو طلاقیں ہوں ،دوران عدت میں (نکاح کے بغیر )اس سےازدواجی تعلقات بحال کرنے کو رجوع کہتے ہیں۔ رجوع کی دلیل کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت ہے۔ قرآن مجید میں ہے: "وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا " "ان کے خاوند اس مدت میں انھیں لوٹا لینے کے(پورے)حقدار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو۔"[1] نیز ارشاد ہے: "الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ" "یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں۔پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑدینا ہے۔"[2] اور فرمان الٰہی ہے: "فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ " "پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انھیں یا تو قاعدے کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انھیں الگ کر دو۔"[3] سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی دلیل سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا وہ قصہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا" "اسے کہو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے۔"[4] علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی تھی ،پھر آپ نے ان سے رجوع کیا تھا۔[5] باقی رہا اجماع تو ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ جب آزاد شخص تین سے کم اور
[1] ۔البقرۃ:2/228۔ [2] ۔البقرۃ:2/229۔ [3] ۔الطلاق:2/65۔ [4] ۔صحیح البخاری الطلاق باب وقول اللّٰه تعالیٰ:"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ" حدیث 5251۔وصحیح مسلم،الطلاق، باب تحریم طلاق الحائض حدیث 1471۔ [5] ۔سنن ابی داود، الطلاق، باب فی المراجعۃ،حدیث 2283والسنن الکبری للنسائی، الطلاق ،باب الرجعۃ، حدیث 5755وسنن ابن ماجہ، الطلاق، باب حدثنا سوید بن سعید، حدیث :2016۔