کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 313
نہیں ہوتی۔ جب کسی نے طلاق کو کسی شرط کے ساتھ مشروط قراردیا تو وجود شرط سے قبل طلاق نہ ہو گی۔ جب طلاق میں شک ہواور یہ شک طلاق کا لفظ بولنے کے بارے میں ہو یا تعداد طلاق میں شک ہو یا حصول شرط میں شک ہو تو اس کی تفصیل درج ذیل ہے: 1۔ اگر اسے اس کے بارے میں شک ہو کہ اس نے طلاق کا لفظ بولا ہے یا نہیں تو محض شک سے طلاق نہ ہو گی کیونکہ نکاح یقینی تھا اور یہ یقین شک سے ختم نہیں ہوتا۔ 2۔ اگر طلاق میں لگائی ہوئی شرط کے حصول میں شک ہو، مثلاً:وہ کہے:"اگر تو فلاں گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق ہے۔"پھر اسے شک ہوا کہ عورت اس گھر میں داخل ہوئی ہے یا نہیں تو عورت کو طلاق نہیں ہو گی ۔ اس کی دلیل بھی وہی ہے جو پہلے ذکر ہوئی۔ 3۔ اگر طلاق کا یقین ہو لیکن اس کی تعداد میں شک ہو تو ایک طلاق واقع ہوگی کیونکہ ایک طلاق کا وقوع یقینی امر ہے اور زیادہ کا ہونا مشکوک ہے۔ یقین شک سے ختم نہیں ہوتا۔یہ قاعدہ عامہ ہے جو تمام احکام شرعیہ میں فائدہ دیتا ہے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ماخوذ ہے: " دَعْ مَا يُرِيبُكَ إِلَى مالا يُرِيبُكَ " "جو چیز تمھیں شک و شبہے میں دالے اسے چھوڑ کروہ اختیار کرو جو شک و شبہے میں نہ ڈالے۔[1] علاوہ ازیں جس نے یقینی طور پر طہارت حاصل کی پھر اسے نقض طہارت میں شک ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: "لَا يَنْصَرِفُ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا، أَوْ يَجِدَ رِيحًا " "وہ واپس نہ پلٹے حتی کہ وہ آواز سن لے یا بو محسوس کرے۔"[2] اس مضمون کی اور روایات بھی ہیں۔ یہ جملہ احکام شریعت اسلامیہ کی بہتری اور اس کے کمال پر دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہمیں یہ نعمت عظمیٰ عطا کی۔
[1] ۔صحیح البخاری البیوع باب تفسیر المشبہات، قبل حدیث 2052 معلقاً، وجامع الترمذی صفۃ القیامۃ، باب حدیث اعقلہا وتوکل۔۔۔ حدیث: 2518۔ [2] ۔صحیح البخاری ،الوضو ءباب لا یتوضا من الشک حتی یستیقن حدیث:137۔