کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 311
لہٰذا ثابت ہوا کہ طلاق تب واقع ہوگی جب زبان کو حرکت میں لا کر الفاظ بآوازبولے جائیں مگر دو حالتوں میں زبان استعمال کیے بغیر طلاق واقع ہو جائے گی۔ 1۔ جب صریح کلمات کے ساتھ طلاق لکھ دی جائے اور اسے واضح طور پر پڑھا جا سکے اور نیت بھی شامل ہو تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ اور اگر نیت شامل نہ ہو تو اس میں علماء کے دو قول ہیں۔ اکثریت کی رائے کے مطابق طلاق واقع ہو جائے گی۔ 2۔ طلاق دینے والا شخص گونگا ہو لیکن اس کا اشارہ وضاحت کر رہا ہو کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہے۔ عورت کو کتنی طلاقیں دی جا سکتی ہیں؟ اس کا دارومدار مرد کی حالت پر ہے کہ وہ آزاد ہے یا غلام کیونکہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے سلسلے میں مردوں ہی سے خطاب فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ" ’’اے نبی ! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انھیں طلاق دو۔‘‘[1] اور فرمایا: "وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ " ’’جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت ختم کرنے پر آئیں۔‘‘ [2] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "إِنَّمَا الطَّلاَقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ"’’طلاق اسی کی طرف سے ہے جس نے عورت سے نکاح کیا ہے۔‘‘ [3] آزاد شخص تین طلاقیں دینے کا مالک ہے اگرچہ اس کے تحت لونڈی ہی ہو اور غلام دو طلاقوں کا مالک ہے اگرچہ اس کی بیوی آزاد ہی کیوں نہ ہو۔ اگر زوجین دونوں آزاد ہوں تو بالا تفاق خاوند تین طلاقیں دینے کا مالک ہے۔ اوراگر دونوں غلام اور لونڈی ہوں تو شوہر بلا اختلاف دو طلاقوں کا اختیار رکھتا ہے۔ کلمۂ طلاق میں استثناء جائز ہے۔ اس کاتعلق طلاقوں کی تعداد سے ہو، مثلاً: کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے:" تمھیں تین طلاقیں ہیں مگر ایک کم یا "مطلقات"کی تعداد سے تعلق ہو، مثلاً: کوئی کہے:"میری تمام بیویوں کو طلاق سوائے فاطمہ کے۔ استثنا کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مستثنیٰ کی مقدار مستثنیٰ منہ سے نصف یا اس سے کم ہو جیسا
[1] ۔الطلاق 65/1۔ [2] ۔البقرۃ:2/231۔ [3] ۔سنن ابن ماجہ ،الطلاق ،باب الطلاق العبد ،حدیث2081۔