کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 307
اس کی صورت یہ ہے کہ صرف ایک طلاق دی جائے اور وہ بھی ایسے طہر میں جس میں بیوی سے مجامعت نہ کی ہو۔ پھر اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائےحتی کہ عدت تمام ہوجائے ۔ یہ طلاق عدت کے اعتبار سے"طلاق مسنون "ہے کہ ایک ہی طلاق دی گئی یہاں تک کہ عدت پوری ہوگئی، نیز وقت کے اعتبار سے "مسنون"ہے کہ خاوند نے اسے ایسے طہر میں طلاق دی جس میں مجامعت نہ کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ" "اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انھیں طلاق دو۔"[1] سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ نے "لِعِدَّتِهِنَّ" کا مفہوم یوں بیان کیا:"وہ حالت طہر میں ہوں اور جماع نہ کیا گیا ہو۔"[2] سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"اگر لوگ طلاق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل پیرا ہوں تو مرد کبھی عورت کے پیچھے پیچھے نہ پھرے۔ اسے چاہیے کہ صرف ایک طلاق دے، پھر اسے تین حیض تک چھوڑدے اگر چاہے تو دوران عدت میں اس سے رجوع کر لے۔"[3]اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے والے کو موقع دیا ہے کہ اگروہ طلاق دے کر نادم ہے تو بیوی سے رجوع کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ تیسری طلاق نہ ہواور عدت کا دورانیہ ہو۔ اگر طلاق کا عدد مکمل ہو گیا ،یعنی تیسری طلاق دےدی تو اس نے اپنے آپ پر رجوع کا دروازہ بند کر لیا۔ غیر مسنون طلاق دینے سے مراد ایسی طلاق ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے دی جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی ایک ہی مجلس میں یکبار تین طلاقیں کہہ دے یا بیوی کو اس وقت طلاق دے جب وہ حالت حیض یا نفاس میں ہو یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے مجامعت کی ہو اور حمل کی کیفیت واضح نہ ہو۔طلاق کی پہلی صورت عدد کے اعتبار سے"غیر مسنون " ہے دوسری اور تیسری صورت وقت کے اعتبار سے"غیر مسنون "کہلاتی ہے۔ 1۔عدد کے اعتبار سے غیر مسنون طلاق مؤثر ہو جاتی ہے۔[4]عورت مرد پر حرام ہو جاتی ہے الایہ کہ وہ کسی دوسرے
[1] ۔الطلاق65/1۔ [2] ۔السنن الکبری للبیہقی :7/325۔ [3] ۔المحلی لابن حزم 10/173۔ [4] ۔ایک ہی مجلس میں دی گئیں تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوگی، تین نہیں، لہٰذا خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہوگا۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ااور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی زمانہ خلافت میں بیک وقت تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ باقی رہے آیت کریمہ کے کلمات: "فَإِن طَلَّقَهَا۔۔۔" تو حدیث شریف کی روشنی میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند نے تیسری مجلس میں یا تیسرے موقع پر تیسری طلاق دے دی تو اس کے لیے وہ حلال نہ ہوگی جب تک کسی اور شخص سے اس کانکاح نہ ہواور وہ اسے طلاق نہ دے یا فوت نہ ہو جائے۔(صارم)