کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 304
اسی طرح اگر خاوند دینی لحاظ سے صحیح نہ ہو تو عورت پر واجب ہے کہ وہ طلاق کا مطالبہ کرے یا خلع کی صورت میں خود کو الگ کر لے اور ایسی حالت میں ہر گز اس کے ساتھ نہ رہے۔ اگر ایلاء کی صورت ہو، یعنی خاوند ترک مجامعت پر قسم اٹھالے اور چار ماہ کا عرصہ بیت جانے کے بعد وہ ترک مجامعت پر مصر رہے اور قسم کا کفارہ نہ دے تو اس صورت میں شوہر کے لیے طلاق دینا واجب ہے ورنہ اسے طلاق دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ () وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللّٰهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ" "جو لوگ اپنی بیویوں سے(تعلق نہ رکھنے کی) قسمیں کھائیں ،ان کے لیے چار مہینے مدت ہے، پھر اگر وہ لوٹ آئیں تو اللہ بھی بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اگر طلاق ہی کا قصد کر لیں تو اللہ سننے والا، جاننے والاہے۔"[1] 5۔ بیوی کو حالت حیض میں یا حالت نفاس میں یا جس طہر میں وطی کی گئی ہو اور حمل کی صورت حال واضح نہ ہو، طلاق دینا حرام ہے۔ اسی طرح شوہر جب بیوی کو تین طلاقیں دے چکا تو پھر طلاق دینا حرام ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ طلاق کی مشروعیت کی دلیل کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع ہے۔ 1۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ " "(رجعی) طلاقیں دو مرتبہ ہیں۔"[2] اور ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ" "اے نبی ! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انھیں طلاق دو۔"[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "إِنَّمَا الطَّلاَقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ" ’’طلاق وہی دے جس نے عورت سے نکاح کیا ہے۔‘‘ [4] طلاق کی مشروعیت پر اجماع کئی ایک اہل علم سے منقول ہے۔
[1] ۔البقرۃ:2/226۔227۔ [2] ۔البقرۃ:2/229۔ [3] ۔الطلاق :65/1۔ [4] ۔سنن ابن ماجہ، الطلاق، باب طلاق العبدحدیث: 2081۔