کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 300
ہو یا اس کی شکل و صورت کو پسند نہ کرے یا اس کی کسی دینی کمزوری کے سبب اس سے نفرت کرے یا کسی وجہ سے اسے اندیشہ ہو کہ وہ خاوند کے حقوق ادا نہ کر کے اللہ تعالیٰ کے ہاں گناہ گار ہو گی تو ان حالات میں عورت کے لیے جائز ہے کہ اپنے خاوند سے کسی شے کے عوض معاہدہ کر کے فسخ نکاح کا مطالبہ کرے اور حاکم اس کے مطالبے کو تسلیم کر کے نکاح کو ختم کردے اور انھیں الگ کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللّٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ" ’’ اگر تمھیں ڈر ہوکہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لیے کچھ دے ڈالے، اس میں دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘[1] خلع کے جواز میں حکمت یہ ہے کہ بیوی خودکو خاوند سے اس طرح الگ کر لیتی ہے کہ اس میں رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی، یہ دونوں کی مشکل کا ایک عادلانہ حل ہے۔ خاوند کو چاہیے کہ اس صورت میں عورت کا مطالبہ تسلیم کر لے۔ اور اگر خاوند کو اس سے محبت ہے تو عورت کو چاہیے کہ صبر کرے اور اس سے خلع نہ لے۔ خلع مباح ہے بشرطیکہ درج بالا آیت میں مذکور سبب موجود ہو،یعنی خاوند اور بیوی کو خوف ہو کہ وہ نکاح میں منسلک رہنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے۔ اگر یہ سبب موجود نہ ہو تو بیوی کی جانب سے خلع کا مطالبہ ناپسندیدہ ہے اور بعض علماء کے نزدیک ایسی حالت میں حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة" ’’جس عورت نے اپنے خاوند سے بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘ [2] شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’شریعت نے جس خلع کی اجازت دی وہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر کو کسی اہم وجہ سے ناپسند کرے اور اس سے اپنی ذات کو قیدی کی طرح فدیہ دے کر آزاد کروالے۔‘‘[3] اگر خاوند بیوی سے محبت نہیں کرتا لیکن اس نے بیوی کو اس لیے اپنے ہاں روک رکھا ہے کہ عورت اکتا کر فدیہ دینا قبول کر لے تو وہ عنداللہ ظالم ہوگا اور اس پر حرام ہے کہ بیوی کو چھوڑنے کے عوض معاوضہ لے، شرعاً یہ خلع درست نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ"
[1] ۔البقرۃ:2/229۔ [2] ۔سنن ابی داؤد الطلاق فی الخلع حدیث 2226۔وجامع الترمذی الطلاق باب ماجاء فی المختلعات حدیث 1187وسنن ابن ماجہ الطلاق باب کراھیہ الخلع للسراۃ حدیث 2055 ومسند احمد 5/277۔ [3] ۔مجموع الفتاوی16/397۔