کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 294
بیوی کا نفقہ اور باری کب ساقط ہوتی ہے؟ جو عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر سفر پر روانہ ہو جائے یا اس کے شوہر کی اجازت تو ہو لیکن وہ اپنی کسی ذاتی ضرورت کے لیے سفر پر جائے تو اس کی باری اور نفقے کا حق ساقط ہو جاتا ہے کیونکہ اگر اس کا سفر خاوند کی اجازت کے بغیر ہے تو وہ نافرمان واقع ہوگی اور اگر اسے خاوند کی اجازت حاصل ہے تو عورت کی جانب سے اور اس کے ذاتی کام کی وجہ سے اس میں تعطل پیدا ہوا ہے۔ اگر مرد نے اپنی بیوی کو سفر میں اپنے ساتھ لے جانا چاہا لیکن اس نے انکار کر دیا تب بھی وہ نفقے کی حق دار نہ ہو گی کیونکہ اس نے شوہر کی حکم عدولی کی ہے۔ اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کے ساتھ شب بسری کرنے سے انکار کر دیا تو بھی وہ نفقے اور اپنی باری سے محروم ہو گی کیونکہ وہ اس انکار کے سبب نافرمان شخص کی طرح ہے۔ اگر کوئی اپنی بیوی کے پاس ایسی رات یا دن کو جائے جس میں اس کی باری نہ تھی تو ایسا کرنا ناجائز ہے الایہ کہ اسے کوئی انتہائی ضروری کام پڑ جائے ۔ اگر کسی عورت نے شوہر کی اجازت سے اپنی باری اپنی کسی سوکن کو ہبہ کر دی یا اس نے اپنے شوہر کو ہبہ کر دی کہ جس بیوی کو چاہے اس کی باری دے دے تو ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنے کا حق دونوں کو حاصل ہے، نیز دونوں راضی ہو چکی ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی ۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں دودن گزارا کرتے تھے۔[1] اگر عورت اپنی باری کسی کو ہبہ کر دے، پھر اس سے رجوع کر لے اور اپنی باری کی بحالی کا مطالبہ کردے تو شوہر کو چاہیے کہ مستقبل کے ایام میں اس کا مطالبہ پورا کرے۔ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی باری اور نفقے کے حق سے اس لیے دست بردار ہو جائے کہ خاوند اسے طلاق نہ دے اور وہ اس کے نکاح میں رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ "
[1] ۔صحیح البخاری، النکاح، باب المراۃ تهب یومھا حدیث 5212۔