کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 288
"لا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ " "مومن شوہر مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے،اگر کسی ایک خصلت کے سبب وہ ناراض ہے تو ممکن ہے کسی دوسری خصلت کے باعث اس سے راضی ہوجائے۔"[1] (3)۔زوجین میں سے ہر ایک پر حرام ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرے یا حقوق کی ادائیگی میں کراہت کا اظہار کرے۔ (4)۔جب عقد نکاح ہوجائے اور مرد اپنے گھر میں اسے بلائے تو اسے سپرد کرنا لازم ہے بشرطیکہ اس کی عمر اتنی ہوکہ اس سے وطی کی جاسکتی ہوالا یہ کہ عورت نے عقد نکاح کے وقت اپنے گھر یااپنے شوہر میں رہنے کی شرط لگائی ہو۔ (5)۔شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کو سفر میں لے کر جائے بشرطیکہ اس میں کوئی معصیت شامل نہ ہویا اس کےدین کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی بیویوں کو سفر میں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ آج کے دور میں غیر اسلامی ممالک اور دیگر اباحات وفساد کے ممالک کی طرف سفر کرنے میں بہت سی اخلاقی قباحتیں اور دین کے لیے خطرات ہیں،اس لیے ان ممالک میں سیروتفریح یاکھیل تماشہ دیکھنے کی خاطر بیوی کو لے کر وہاں جانا درست نہیں،لہذا بیوی کو چاہیے کہ وہ دیار اغیار میں جانے سے انکار کردے اور اس کے ولی کو چاہیے کہ وہ عورت کو شوہر کے ساتھ ان ممالک کاسفر کرنے سے انکار کردے۔ (6)۔آج کے دور میں دولت مند لوگ شادی کرنے کے بعد"ہنی مون" منانے کے لیے کافر ممالک کا رخ کرتے ہیں،حقیقت میں ان کے لیے یہ لمحات زہر قاتل ہیں کیونکہ عام انسان وہاں کے ماحول کی خرابیوں کا شکار ہوجاتا ہے،مثلاً:عورت کے پردے کا ختم ہونا،کفار کا لباس پہن کر خود کو اچھا بلکہ برتر سمجھنا،کافروں کے اطوار وعادات کو دیکھنا اور پھر انھیں اپنانا،خلاف شرع امور میں ان کی تقلید کرنا،لہوولعب کے مقامات کو دیکھنا وغیرہ۔خاص طور پر صنف نازک ان کے رزیل کاموں کو دیکھ کر متاثر ہوجاتی ہے حتیٰ کہ وہ اسلامی معاشرے کے آداب واخلاق کو ناپسند کرنے لگتی ہے، لہذا ایسا سفر حرام ہے۔بہرصورت خود کو اور اپنے اہل وعیال کو بچانا ازحد ضروری ہے۔جو دوست یا بھائی ایسے سفر کا ارادہ رکھتے ہوں انھیں روکنا چاہیے یا عورت کے ولی کو چاہیے کہ وہ عورت کو ان ممالک میں ہرگز نہ جانے دے۔اگر کوئی بے غیرت مرد ایسا کرے تو ورثاء کو چاہیے کہ اپنی بہن یا بیٹی کو روک لیں،چاہےطلاق تک ہی نوبت پہنچ جائے کیونکہ عورت اپنے سرپرستوں کے پاس اللہ کی امانت ہے جس کی حفاظت ان کا فرض ہے۔اگر
[1] ۔صحیح مسلم الرضاع باب الوصیۃ بالنساء حدیث :1467،ومسند احمد:2/329۔