کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 283
الگ رہے تو اسے یہ حق حاصل نہیں ہوگا۔ ولیمے کا بیان ولیمے کے لغوی معنی ہیں:"کسی شے کا مکمل ہونا اور اس کا جمع ہونا۔"شادی کے موقع پر"کھانا کھلانے" کو ولیمہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ شادی کے سبب مرد اورعورت اکٹھے ہوتے ہیں۔ لغت عرب اور فقہاء کی اصطلاح میں مرد کی طرف سے شادی کے موقع پر کھانا کھلانےہی کو ولیمہ کہا جاتا ہےکسی اور کھانے کو نہیں۔موقع ومحل کی مناسبت سے دوسرے کھانوں کے اور نام ہیں ۔ اہل علم کا اتفاق ہے کہ ولیمہ کرنا"سنت" ہے۔بعض علماء کے نزدیک ولیمہ کرنا"واجب" ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور دعوت ولیمہ کو قبول کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے جب نکاح کی خبر سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: " أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ " "ولیمہ کروچاہے ایک بکری کا ہو۔"[1] اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب امہات المومنین حضرت زینب ،صفیہ اور میمونہ رضی اللہ عنہن سے شادیاں کیں تو ولیمہ کیا۔ (1)۔دعوت ولیمہ کے انعقاد کےوقت میں وسعت ہے جس کی ابتداء عقد نکاح سے ہوجاتی ہے اور شادی کے اختتام تک ہے۔ (2)۔مقدارولیمہ کے بارے میں بعض فقہاء کی یہ رائے ہے کہ ایک بکری سے کم نہ ہو،زیادہ ہوتو بہترہے۔سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم دیا تھا اس کایہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے لیکن ایسا تب ہے جب آسانی ہوورنہ دعوت ولیمہ کا اہتمام حسب طاقت ہونا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو حیس بنا کر ولیمہ کیا جو کہ آٹا،گھی اور پنیر وغیرہ ملاکر تیار کیا جاتا ہے،اسے ایک چٹائی(دسترخوان) بچھا کر اس پر رکھ دیا گیا،(پھر سب نے کھایا۔)[2] اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ گوشت کے بغیر بھی ولیمہ جائز ہے۔
[1] ۔صحیح البخاری،البیوع باب ماجاء فی قول اللّٰه عزوجل(فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا.....)(الجمعۃ62/ 10،11)،حدیث:2049،وصحیح مسلم النکاح باب الصداق وجواز کونہ تعلیم قرآن۔۔۔،حدیث:1427۔ [2] ۔صحیح البخاری الصلاۃ باب ما یذکر فی الفخذ؟حدیث:371۔