کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 279
میں سے کسی کا مہربارہ اوقیے(تقریباً پانچ صد درہم) سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا۔ایک آدمی اپنی بیوی کا مہر گراں قبول کرلیتاہے یہاں تک کہ اس کے دل میں عداوت اور دشمنی سما جاتی ہے اور کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے تجھ کو نکاح میں لانے کے لیے ہر ایک مشکل کو برداشت کیا ہے یہاں تک کہ مشکیزے کی رسی بھی اٹھانی پڑی تو اٹھائی ہے(محنت مزدوری کرکے تیرا مہر پورا کیا ہے۔)"[1] اس روایت سے معلوم ہواکہ بسا اوقات مہر کے زیادہ ہونے سے خاوند کے دل میں بیوی کےخلاف بغض وعداوت پیدا ہوجاتی ہے۔اسی لیے کہاگیا ہے کہ"جو عورتیں مہر کے بارے میں آسانی پیدا کرتی ہیں برکت کا باعث ہیں۔" جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ذکر ہوچکا ہے۔الغرض مہر میں آسانی پیدا کرنے سے خاوند کے دل میں بیوی کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ (3)۔مہر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ یہ عورت سے استمتاع کا معاوضہ،بیوی کی عزت وتکریم اور اس کے مقام ومرتبے کا لحاظ ہے۔ (4)۔نکاح کے وقت مہر کی رقم کانام لینا،اس کی تحدید وتعیین کرنا مستحب ہے تاکہ بعد میں کسی قسم کاکوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ (5)۔انعقعاد نکاح کے بعد بھی مہر مقرر کیا جاسکتاہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً " "اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کیے طلاق دے دوتو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں۔"[2] آیت کریمہ سے وضاحت ہوتی ہے کہ مہر عقد نکاح کے وقت سے مؤخر ہوسکتا ہے۔ (6)۔نوعیت مہر کے بارے میں یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو شے بیع میں قیمت بن سکے یااجارے میں اجرت کے طور پر ادا ہوسکے،اسے مہر کے طور پر مقرر کرناجائز ہے۔وہ کوئی معین شے ہو یا کوئی ایسی چیز جس کی ادائیگی کا وعدہ کیا گیا ہو یا کوئی معین کام حق مہر مقرر کرلیا جائے۔اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مطلوب ومقصود مہر میں آسانی پیدا کرنا ہے جو احوال وواقعات کی مناسبت سے ہو،نیز نکاح کو آسان بنانا مطلوب ہے جس سے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی عظیم مصلحتیں وابستہ ہیں۔ مہر سے متعلق چند اہم مسائل حسب ذیل ہیں:
[1] ۔سنن ابی داود النکاح باب الصداق حدیث 2106 وجامع الترمذی النکاح باب ما جاء فی مھور النساء حدیث 1114۔وسنن النسائی، النکاح باب القسط فی الاصدقۃ حدیث 3351،واللفظ لہ۔ [2] ۔البقرۃ:2/236۔