کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 274
طرف کی گئی ہے۔ارشاد الٰہی ہے: "وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ" "اور اس کی بیوی بھی(آگ میں جائے گی) جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے۔"[1] نیز ارشاد ہے:"امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ" "فرعون کی بیوی"[2] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عورت کی نسبت اس کے کافر خاوند کی طرف کی ہے اور یہ نسبت زوجیت کے درست ہونے کی متقاضی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" درست بات یہی ہے کہ کفار کے وہ نکاح جو اسلام میں حرام ہیں وہ مطلقاً حرام ہیں۔ایسا کرنے والے لوگ اگر اسلام قبول نہیں کریں گے تو آخرت میں انھیں اس جرم کی بھی سزا ملے گی اور اگر وہ مسلمان ہوجائیں تو ان کا یہ گناہ معاف ہوجائے گا کیونکہ ان کا عقیدہ نہ تھا کہ ان عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے۔باقی رہا نکاح کا صحیح یافاسد ہونا تو درست بات یہی ہے کہ وہ ایک اعتبار سے صحیح ہے اور ایک اعتبار سے فاسد۔اگر نکاح کے صحیح ہونے سے مراد تصرف کا جائز ہونا ہے تو بشرط اسلام جائز ہوگا۔اوراگر یہ مقصد ہے کہ اسے نافذ مانا جائے اور زوجیت کے احکام مرتب ہوں،مثلاً:اس کی وجہ سےتین طلاق دینے والے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہونا یا اس کے نکاح کے بعد طلاق ہونا یا اس کی وجہ سے اسے شادی شدہ شمار کرناتو اس معنی میں یہ نکاح صحیح ہے۔"[3] (8)۔کفار کے نکاح کے احکام میں سے یہ ہے کہ وہ فاسد صورتوں میں بھی دو شرطوں کے ساتھ قائم رہیں گے۔ 1۔ کفاراپنی شریعت کے مطابق اسے جائز سمجھیں۔اگر وہ اپنے عقیدے کے مطابق جائز نہ سمجھیں توانھیں اس نکاح پر قائم نہیں رہنے دیا جائےگا کیونکہ یہ ان کے دین میں شامل نہیں۔ 2۔ کفار ان فاسد نکاح کے مقدمات کوہماری عدالتوں میں پیش نہ کریں۔اگر وہ پیش کریں گے تو ہم انھیں ان فاسد نکاح پر قائم نہیں رہنے دیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: "وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ" "آپ ان کے معاملات میں اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی فیصلہ کیاکیجئے۔"[4] (9)۔اگر کفار اس نکاح کو درست سمجھنے کا عقیدہ رکھیں اور ہماری عدالتوں میں ایسا مقدمہ نہ لائیں تو ہم ان سے تعرض نہیں کریں گے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے"ہجر" کے مجوسیوں سے جزیہ لیا لیکن ان کے نکاح کے معاملات میں دخل اندازی نہ کی،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ مجوس محرمات سے نکاح کرنا جائز سمجھتے ہیں۔واضح
[1] ۔اللھب :111/4۔ [2] ۔ التحریم 66/11۔ [3] ۔الفتاویٰ الکبری الاختیارات العلمیۃ :5/466۔ [4] ۔المائدۃ:5/49۔