کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 271
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" مشہور اور متواتر روایات متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے متعہ کو حلال کرنے کے بعد مستقل طور پر حرام قراردے دیا ہے۔"[1] امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"تمام روایات اس امر پر متفق ہیں کہ متعے کی اباحت کادور لمبا دور نہ تھا،پھر اسے حرام قرار دے دیا گیا۔اس کی حرمت پر سلف وخلف علماء کااتفاق ہے ،ماسوا روافض کے جو کسی گنتی وشمار میں نہیں آتے۔"[2] دوسری نوع ان فاسد شرائط کی ہے جن سے نکاح باطل نہیں ہوتا اور وہ حسب ذیل ہیں: (1)۔اگرکسی نے عقد نکاح میں عورت کے حقوق میں سے کسی حق کو ختم کرنے کی شرط عائد کی،مثلاً:مرد نے شرط عائد کی کہ عورت کے لیے مہر نہ ہوگا یا وہ اسے نان ونفقہ نہیں دے گا یا اسے اس کی سوکن سے کم حقوق ملیں گے تو ان تمام احوال میں شرط فاسد ہوگی،البتہ نکاح صحیح ہوگا کیونکہ اس شرط کا تعلق ایک زائد چیز سے ہے جس کا ذکر لازم ہے نہ اس سے عدم واقفیت باعث ضرر ہے(اس شرط کا عقد نکاح سے کوئی تعلق نہیں۔) (2)۔اگر کسی نے بیوی کے مسلمان ہونے کی شرط عائد کی لیکن معلوم ہواکہ وہ"کتابیہ" ہے تو نکاح صحیح ہے،البتہ اسے فسخ نکاح کا اختیار ہے۔ (3)۔اسی طرح شوہر نے بیوی کے کنواری ہونے یا خوبصورت ہونے یا اونچے خاندان کی شرط عائد کی لیکن صورت حال اس کے برعکس ظاہر ہوئی توشوہر کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے کیونکہ عائد کردہ شرط مفقود ہے۔ (4)۔کسی نے ایک عورت کو آزاد سمجھ کر شادی کی لیکن بعد میں اس کا لونڈی ہونا ثابت ہواتو اگر اس کے لیے لونڈی سے نکاح کرنا جائز نہیں تو دونوں میں تفریق ڈال دی جائےگی اور اگر اس کے لیے نکاح کرنا جائز ہواتو اسے فسخ نکاح کا اختیار ہے۔ (5)۔اسی طرح اگر کسی عورت نے کسی مرد کو آزاد سمجھ کر شادی کی اور بعد میں وہ غلام ثابت ہواتو عورت کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے۔ اگر غلام کی بیوی کو آزادی مل گئی تو اسےغلام خاوند کے نکاح میں رہنے یانہ رہنے کا اختیار ہے کیونکہ بریرہ رضی اللہ عنہا جو غلام کی بیوی تھی۔جب اسے خاوند سے پہلے آزادی مل گئی تو اس نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے مفارقت اختیار کی جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے۔
[1] ۔منھاج السنۃ النبویہ :2/156۔ [2] ۔فتح الباری:9/173۔