کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 262
"اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو گزر چکا ہے، یہ بے حیائی کا کام اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری راه ہے ۔حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں اور تمہاری وه مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وه پرورش کرده لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کر چکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناه نہیں اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا، ہاں! جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔"[1] درج بالا دونوں آیات کی روشنی میں جو عورتیں نسب کی وجہ سے حرام ہیں ان کی وضاحت یوں ہے: ماں،دادی اور نانی جیسا کہ اللہ کے فرمان:( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ) سے معلوم ہوتا ہے۔ بیٹی ،پوتی،نواسی پوتی کی بیٹی وغیرہ ،اللہ کے فرمان:( وَبَنَاتُكُمْ) میں ہے۔ سگی بہن،علاتی بہن اور اخیافی بہن،اللہ تعالیٰ کے ارشاد:( وَأَخَوَاتُكُمْ) سے واضح ہوتا ہے۔ پھوپھی اور خالہ۔یہ دونوں عورتیں اللہ تعالیٰ کے فرمان:( وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ) میں مذکور ہیں۔ بھتیجی ،بھتیجی کی بیٹی اوربھتیجے کی بیٹی۔یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان:(وَبَنَاتُ الْأَخِ) میں ہے۔ بھانجی ،بھانجے کی بیٹی ،بھانجی کی بیٹی۔یہ اللہ کے فرمان:( وَبَنَاتُ الْأُخْتِ) سے مستفاد ہے۔ (2)۔وہ عورتیں جو سبب کی وجہ سے حرام ہیں،ان کی تفصیل یہ ہے: (3)۔ملاعنہ(لعان کرنے والی عورت) ،ملاعن(لعان کرنے والے) شخص پر حرام ہے،یعنی اگر مردنے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دیا اور عورت نے اس کا انکار کیا تو دونوں کے درمیان لعان(ایک دوسرے پر لعنت کرنا) ہوگا۔لعان کے بعد دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں۔نکاح فسخ ہوجاتا ہے۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"لعان کرنے والوں میں ہمیشہ سے یہ طریقہ رائج رہا ہے کہ ان میں جدائی ڈال دی جائےگی،پھر وہ کبھی اکھٹے نہ ہو سکیں گے۔"[2] ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اس مسئلے میں کسی کا اختلاف ہمارے علم میں نہیں آیا۔"[3] (4)۔رضاعت کے سبب وہ تمام عورتیں حرام ہیں جو نسب کے سبب حرام ہوتی ہیں،مثلاً:رضاعی مائیں،رضاعی بہنیں۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
[1] ۔النساء:4/22۔23۔ [2] ۔سنن ابی داود،الطلاق باب فی اللعان ،حدیث 2250۔ [3] ۔المغنی والشرح الکبیر :9/34۔