کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 253
"تم ان عورتوں سے شادی کرو جو بہت محبت کرنے والیاں اور بچے جننے والیاں ہوں کیونکہ روز قیامت میں تمہاری کثرت ہی کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔"[1] اس مفہوم کی اور بھی روایات ہیں۔ نکاح کا حکم انسان کی جسمانی اور مالی حالت اور ذمے داری نبھانے کی استعداد کے مختلف ہونے کی بنا پر مختلف ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے نوجوانوں کو جلدی شادی کرنے کی ترغیب دی کیونکہ دوسروں کی نسبت انھیں نکاح کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَلْيَصُمْ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ" "اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو قوت رکھے وہ شادی کرے کیونکہ اس سے نگاہ نیچی اور شرمگاہ محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے اس کی وجہ سے اس کے جذبات کی شدت ختم ہو جائے گی۔"[2] شادی کی طاقت نہ ہونے کی صورت میں آپ نے جذبات کا جوش کم کرنے کے لیے روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی کیونکہ روزہ سے جہاں صنفی (جنسی) خواہشات پر کنٹرول ہوتا ہے وہاں خشیت الٰہی اور تقوے کی صفات سے بھی انسان مالامال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ " ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر صوم(روزہ) فرض کیا گیا تھا تاکہ تقوی اختیار کرو۔‘‘[3] نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: "وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ" "لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم با علم ہو۔"[4] خلاصہ کلام یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو چیزوں کے بارے میں حکم دیا ہے اور انسان کو شہوت کے
[1] ۔سنن ابو داؤد۔النکاح باب النھی عن تزویج من لم یلد من الناء حدیث 2050وسنن النسائی والنکاح باب کراھیہ تزویج العقیم حدیث 3229۔ والتلخیص الحبیر 3/145وکنز العمال 16/302۔حدیث 44597۔واللفظ لہما [2] ۔صحیح البخاری النکاح باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم حدیث 5066۔وصحیح مسلم النکاح باب الستحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیہ حدیث 1400واللفظ لہ۔ [3] ۔البقرۃ:2/183۔ [4] ۔البقرۃ:2/184۔