کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 252
"تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ" "عورت سے چار چیزوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے:(1)اس کے مال (2)خاندان (3)جمال(4)اور دین کی وجہ سے لیکن تم اس کے دین کو دیکھ کر نکاح کرو۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔"[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے لیے عورت کے انتخاب میں دین کے علاوہ کسی اور چیز کو معیار بنانے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے: "لَا تَنْكِحُوا النِّسَاءَ لِحُسْنِهِنَّ فَلَعَلَّهُ يُرْدِيهِنَّ ، وَلَا لِمَالِهِنَّ فَلَعَلَّهُ يُطْغِيهِنَّ ، وَانْكِحُوهُنَّ لِلدِّينِ" "عورتوں سے حسن کی بناپر شادی نہ کرو۔ہوسکتا ہے ان کا حسن انھیں تباہ کر دے۔ اور نہ ان کے مال کو دیکھ کر شادی کرو کیونکہ ممکن ہے مال انھیں سرکش بنادے، تم ان کے دین کی وجہ سے شادی کرو۔"[2] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوان اور کنواری عورت سے شادی کرنے کی طرف رغبت دلائی ہے، چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: " هَلاَ تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ" "تم نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس سے اور وہ تم سے کھیل وشغل کرتی؟"[3] اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے کوئی خاوند دیکھا نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کی محبت کامل درجے کی ہوتی ہے وگرنہ ممکن ہے اس کا دل پہلے خاوند کے ساتھ معلق رہے اور دوسرے شوہر کی طرف اس کا پوری طرح میلان نہ ہو۔ مسنون یہ ہے کہ ایسی عورت سے شادی کی جائے جس سے زیادہ بچے پیدا ہونے کی امید ہو کیونکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأُمَمَ يوم القيامة"
[1] ۔صحیح البخاری، النکاح باب الاکفاء فی الدین حدیث 5090۔وصحیح مسلم الرضاع باب استحباب النکاح ذات الدین حدیث 1466۔ [2] ۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ النکاح باب تزویج ذات الدین ،حدیث 1859۔والسنن الکبری للبیہقی 7/80۔ والتلخیص الحبیر 3/146۔ واللفظ لہ۔ [3] ۔صحیح البخاری الجہاد باب استئذان الرجل الامام حدیث 2967 وصحیح مسلم، الرضاع ،باب استحباب نکاح البکر حدیث (55)715بعد حدیث 1466۔