کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 249
(6)۔ نکاح کے ذریعے سے نسب کی حفاظت، رشتے داری کی بنیاد اور اقرباء کو باہم جوڑنا ہے۔ اور یہ ایک شریف خاندان کے قیام کا موجب ہے جس کی بنیاد محبت، شفقت صلہ رحمی اور ایک دوسرے کی مددوخیر خواہی کرنے پر ہوتی ہے۔ (7)۔ نکاح سے آدمی حیوانی زندگی سے بلند ہو کر اعلیٰ انسانی زندگی کی سطح پر آجاتا ہے۔ نکاح کے یہ مذکورہ فوائد اور اثرات و نتائج اس نکاح پر مرتب ہوتے ہیں جو کتاب و سنت کے احکام کی روشنی میں منعقد ہو اور اس کے شرعی تقاضے پورے ہوں۔ نکاح ایک عقد شرعی ہے جس کا تقاضا ہے کہ خاوند اور بیوی ایک دوسرے سے متمتع ہوں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٍ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللّٰهِ" "میں تمھیں عورتوں کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں کہ ان سے اچھا سلوک کرنا وہ تمہارے ماتحت اور احکام کی پابند ہیں۔[1]اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق تم نے ان کی عصمت کو حلال سمجھا ہے۔"[2] عقد نکاح زوجین کے درمیان ایک پختہ معاہدے کا نام ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: "وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا "’’اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہدو پیمان لے رکھا ہے۔‘‘[3] اس عقد کے جملہ تقاضے پورے کرنا زوجین میں سے ہر ایک پر لازم ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ" ’’اے ایمان والو! عہدو پیمان پورے کرو۔‘‘ [4] جس شخص میں ہمت و استطاعت ہو اور اسے بیویوں کے درمیان ناانصافی کے ارتکاب کا خطرہ نہ ہوتو وہ ایک سے زیادہ، یعنی چار عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً " ’’اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر و دو،دو، تین تین اور چار چار سے،لیکن اگر تمھیں برابری (عدل ) نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کے ساتھ نکاح کرو۔‘‘[5] اس آیت میں عدل سے مراد حسب انصاف قائم کرنا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ خاوند اپنی بیویوں کے
[1] ۔سنن ابن ماجہ النکاح باب حق المراۃ علی الزوج حدیث:1851۔ [2] ۔صحیح مسلم الحج باب حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم حدیث:1218۔ [3] ۔النساء:4/21۔ [4] ۔المائدۃ:5/1۔ [5] ۔النساء:4/3۔