کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 239
"وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ " "تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھا (نصف) تمہارا ہے۔اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کو چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارےلیے چوتھائی حصہ ہے اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کے بعد۔اور جو(ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد ہو تو انھیں تمہارےترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔"[1] جب تک عقد زوجیت قائم ہے تب تک حق میراث باقی ہےالایہ کہ کوئی مانع ارث حائل ہو جائے۔ جب زوجیت کی گرہ مکمل طور پر کھل جائے جس کی صورت طلاق بائن ہے تو حق میراث ختم ہو جاتا ہے کیونکہ سبب موجود نہ رہا تو مسبب بھی جاتا رہا۔ البتہ طلاق رجعی کی صورت میں عورت عدت کے دوران میں حق میراث سے محروم نہ ہوگی ۔مطلقہ کی میراث کی توضیح میں فقہائے کرام نے کتب میراث میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے۔ مطلقات کی اجمالاً تین قسمیں ہیں: 1۔ مطلقہ رجعیہ: جس عورت کو رجعی طلاق ہو۔ ایسی طلاق طلاق دینے والے کی حالت صحت میں دی گئی ہو یا حالت مرض الموت میں دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ 2۔ مطلقہ بائنہ: جسے حالت صحت میں ایسی طلاق دی گئی ہو جس میں رجوع کا حق نہیں رہتا۔ 3۔ مطلقہ بائنہ: یعنی جسے حالت مرض الموت میں طلاق دی گئی ہو جس میں رجوع کا حق نہیں رہتا۔ پہلی قسم کی عورت بالا جماع"حق میراث"رکھتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے والا فوت ہو جائے اور مطلقہ اپنی عدت طلاق کے اندر ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک مطلقہ عدت میں ہو وہ طلاق دینے والے کی بیوی ہی شمار ہوتی ہے۔لہٰذا اسے بیوی کے حقوق بھی حاصل ہوں گے۔ جس عورت کو شوہر نے حالت صحت میں طلاق بائن دی وہ بالا جماع وارث نہیں کیونکہ طلاق بائن سے زوجیت کا تعلق ختم ہو جاتا ہے۔اس میں شوہر پر الزام بھی نہیں لگ سکتا کہ اس نے بیوی کو محروم رکھنے کے لیے طلاق دی ہے۔اسی طرح اگر مرد بیوی کو اپنی ایسی بیماری میں طلاق بائن دے جس میں موت کا اندیشہ نہ ہو اس کا بھی درج بالا حکم ہے۔
[1] ۔النساء:4/12۔