کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 235
تناقص پایا جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ کسی کو وارث قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ وفات میں متاخر ہے اور پھر اس کے ترکے کا کسی دوسری میت کو وارث قراردینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ وفات میں مقدم ہے۔ ایک ہی شخص کو موت میں بیک وقت مقدم اور مؤخر قرار دینا تناقض ہے۔ الغرض راحج قول کے مطابق مال ترکہ صرف ان ورثاء کو ملے گا جو زندہ ہوں گے اور جو اس کے ساتھ ہی فوت ہوئے ہیں انھیں کچھ حصہ نہ ملے گا۔ اس عمل کی بنیاد یقین پر ہے نہ کہ شک و شبہ پر۔ واللہ اعلم۔ رد کا بیان "رد" کے لغوی معنی پھیرنے اور لوٹانے کے ہیں۔ دین حق سے پھر جانے کو بھی"ارتداد"اسی وجہ سے کہتے ہیں جبکہ اصطلاح میراث میں "رد " سے مراد ہے" اصحاب الفرائض کے حصص کی ادائیگی کے بعد جو سہام باقی بچ جائیں اور کوئی عصبہ وارث نہ ہو انھیں دوبارہ اصحاب الفرائض نسبیہ پر لوٹا دینا۔" اللہ تعالیٰ نے بعض ورثاء کے حصے ،جیسے نصف ،چوتھائی ،آٹھواں، دو تہائی ،تہائی اور چھٹا مقرر فرمادیے ہیں۔ علاوہ ازیں عصبات مردوں یا عورتوں کے لیے طریقۂ تقسیم بھی بیان کر دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: "أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ" "اصحاب الفرائض کوان کے مقررحصے ادا کرو۔ پھر جو بچ جائے وہ قریبی مرد(عصبہ) کا حصہ ہے۔"[1] یہ حدیث قرآن مجید کے حکم کی وضاحت کرتی ہے اور ورثاء کی دونوں قسموں میں تقسیم ترکہ میں ترتیب مقرر کرتی ہے۔لہٰذا جب اصحاب الفرائض اور عصبہ ورثاء کی دونوں قسمیں موجود ہوں تو حدیث مذکورہ کی روشنی میں حکم واضح ہے کہ اولاً اصحاب الفرائض کو ان کے مقررہ حصص دیے جائیں اور جو ترکہ باقی بچ جائے وہ عصبہ کو دیا جائے ۔ اگر باقی کچھ نہ بچے تو عصبہ محروم ہو گا۔ اور اگر صرف عصبات وارث ہوں تو وہ سارا مال اپنی تعداد کے مطابق بانٹ لیں گے۔ اشکال اس صورت میں ہے کہ جب اصحاب الفرائض کو ان کے مقررہ حصص دے کر ترکہ بچ جائے اور عصبہ میں سے بھی کوئی موجود نہ ہو جسے باقی ترکہ مل جائے تو اس کا حل یہ ہے کہ بچا ہوا ترکہ بھی اصحاب الفرائض پر ان کے
[1] ۔صحیح البخاری،الفرائض باب میراث الولد من ابیہ وامہ حدیث6732۔وصحیح مسلم الفرائض باب الحقوالفرائض باھلھا فما بقی فلاولیٰ رجل ذکر، حدیث 1615۔