کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 230
عصبہ ہو۔ ایسے شخص کو ترکہ میں سے کچھ نہیں دیا جائے گا۔ اور جو شخص ہر صورت میں وارث ہو لیکن کسی میں کم اور کسی میں اسے زیادہ حصہ ملتا ہو تو اسے کم حصہ ملے گا اور جس کے حصے میں کسی صورت میں اختلاف نہیں ہوتا(حمل خواہ لڑکا ہو یا لڑکی) تو اسے کامل حصہ ملے گا۔ اس کے بعد باقی حصہ محفوظ کر لیا جائے گا حتی کہ حمل کی صورت حال واضح ہو جائے۔ 2۔ ترکہ میں سے حمل کے لیے زیادہ حصہ اور دیگر ورثاء کے لیے کم حصہ ہوگا ۔ حمل کے لیے دو لڑکوں یا دو لڑکیوں کا حصہ( جو زیادہ ہو)رکھا جائے گا اور اس کے ساتھ شریک وارث کو یقینی حصہ ملے گا۔ جب حمل کی ولادت ہو گی اور صورت حال واضح ہو جائےگی تو حمل اگر موقوف مال کے اکثر حصے کا حقدار ہو گا تو اسے مل جائے گا اور اگر موقوف حصہ کم ہوا تو ورثاء سے وصول کر کےحمل کے حصے کی کمی پوری کی جائے گی۔ 3۔ حمل کے لیے ایک لڑکے یا ایک لڑکی کا حصہ(جو زیادہ ہو)رکھا جائے گا کیونکہ عام طور پر عورت ایک ہی بچہ جنتی ہے، لہٰذا حکم غالب اور عام عادت پر محمول ہو گا۔ قاضی پر لازم ہے کہ ورثاء میں سے کسی کو حمل کا کفیل مقرر کرے کیونکہ حمل خود اپنے مفاد کا خیال رکھنے سے قاصر ہے۔ کفیل وضع حمل کے بعد حصص میں ردوبدل آنے کی صورت میں ہر حق والے کو اس کا حق پہنچانے کی ذمے داری پوری کرے گا۔ ہمارے نزدیک دوسرا قول احتیاط اور انصاف پر مبنی ہے کیونکہ دو بچوں کی ولادت کے واقعات کثرت سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ دو سے زائد بچوں کی ولادت کے واقعات شاذ و نادر ہیں۔ راجح قول کے مطابق حمل کی چھ حالتیں ہو سکتی ہیں: (1)زندہ پیدا ہو گا یا مراہوا(2)زندہ پیدا ہوا تو پھر لڑکا ہو گا۔(3)لڑکی ہو گی(4)ایک لڑکا ایک لڑکی(5) دونوں لڑکے (6)دونوں لڑکیاں۔ ہر صورت کا مسئلہ بنایا جائے گا اور حساب کے مطابق دیگر ورثاء میں سے ہر وارث کو اس کا حصہ دیا جائے گا۔جس وارث کا حصہ ہر صورت میں ایک جیسا ہو گا اسے کامل حصہ دے دیا جائے گا۔ جس کا حصہ ایک اعتبار سے کم اور دوسرے اعتبار سے زیادہ ہو گا تو اسے کم حصہ دیا جائے گا۔ اور جو ایک اعتبار سے وارث اور دوسرے اعتبار سے غیر وارث ہو گا اسے محروم رکھا جائے گا۔ باقی ترکہ موقوف اور محفوظ رہے گا حتی کہ حمل کی پیدائش سے صورت حال واضح ہو جائے جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ واللہ اعلم۔