کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 22
قانوناً آزاد ہورہا ہو)[1]کیونکہ اس صورت میں مسلمان کو کافر کے آگے جھکانا اور ذلیل کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَلَنْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً" "اور اللہ کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راہ نہ دے گا۔"[2] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "الْإِسْلَامُ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى " "اسلام غالب ہوتا ہے مغلوب نہیں۔"[3] د۔مسلمان بھائی کی بیع پر بیع کرنا حرام ہے،مثلاً:ایک شخص نے کسی سے دس روپے کی ایک شے خریدی ،دوسرا شخص اسے کہے:تو یہ شے بائع کو واپس کردے میں تجھے ایسی ہی شے نو رو پے میں دیتا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ" "تم میں کوئی ایک دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے۔"[4] دوسری حدیث کے الفاظ ہیں: "لا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ" "کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پربیع نہ کرے۔"[5] اسی طرح کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی خریداری پر خریداری نہ کرےمثلاً:کسی نے نوروپے کی کوئی شے بیچ دی،دوسرا شخص اسے کہے:میں تجھ سے یہ چیز دس روپے میں خریدنے کو تیار ہوں۔ افسوس! کہ آج کل مسلمانوں کے بازاروں میں تجارت اور لین دین کی کتنی ہی حرام صورتیں جاری وساری ہیں۔ہرمسلمان کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور جو کوئی ایسا کرنے پر مجبور کرے اسے صاف انکار کردینا چاہیے۔ ر۔تجارت کی حرام صورتوں میں سے ایک صورت شہری کا دیہاتی کے لیے بیع کرنا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
[1] ۔ اسلامی قانون یہ ہے کہ جب کوئی غلام اپنے محرم رشتے دار کی ملکیت بن جائے،مثلاً:اس کا باپ بھائی وغیرہ خرید لے تو وہ اس کی ملکیت میں آتے ہی آزاد شمار ہوگا۔(صارم) [2] ۔ النساء4/141۔ [3] ۔ السنن الکبریٰ للبیہقی :6/205۔وصحیح البخاری الجنائز باب اذا اسلم الصبی فمات۔۔۔بعد حدیث:1353 معلقاً۔ [4] ۔ صحیح البخاری،البیوع باب النھی عن تلقی الرکبان۔۔۔حدیث:2165،وصحیح مسلم،البیوع باب تحریم بیع الرجل علی بیع اخیہ۔۔۔حدیث :(7)۔1412۔ [5] ۔ صحیح البخاری،البیوع باب لا یبیع علی بيع اخیہ۔۔۔حدیث:2140،وصحیح مسلم،البیوع باب تحریم بیع الرجل علی بیع اخیہ۔۔۔حدیث:(8) 1412۔