کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 217
جوکل مال کے چھٹے اور باقی کے ثلث سے زیادہ ہے۔اصل مسئلہ 2سے جبکہ تصحیح 4 سے ہوگی۔ حل: 4=2x2 خاوند 1 2  دادا  1  بھائی  1  دوسری حالت: باقی مال کا ثلث دونوں صورتوں،یعنی مقاسمت اورکل مال کے چھٹے حصے سے بہترہو۔ مثال:ماں،دادا اورپانچ بھائی۔اس صورت میں فرض حصے کی مقدار نصف سے کم ہوتی ہے ،نیز بھائیوں کی تعداد دادے کے دوگنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔اس حالت میں ثلث الباقی کی تعیین کی وجہ یہ ہے کہ اولاً ماں کو چھٹا حصہ ملے گا،پھر باقی پانچ حصے دادے اور پانچ بھائیوں میں تقسیم ہوں گے۔دادے کو ثلث الباقی،یعنی 1صحیح 2بٹا 3 ملاجو مقاسمت اور چھٹے حصے سے زیادہ ہے،البتہ صاحب فرض کا حصہ ادا کرکے باقی مال کاتہائی بلاکسر حاصل نہیں ہوتا،لہذا تہائی کے مخرج ،یعنی تین کو اصل مسئلہ،یعنی چھ سے ضرب دی تو حاصل ضرب اٹھارہ ہوئے۔ماں کو اصل مسئلہ سے ایک ملا تھاجب سےتین سے ضرب دی تو اس کے تین حصے ہوگئے۔اس طرح دادے کوپانچ مل گئے جوکہ باقی مال کی تہائی ہے اور باقی دس حصے پانچ بھائیوں میں یوں تقسیم کیے کہ ہر ایک کو دو دو مل گئے۔الغرض اس صورت میں باقی کاثلث مقاسمت اور کل مال کے چھٹے حصے سے بہترثابت ہوتا ہے۔ حل: 18=3x6 ماں 1 3  دادا (1 5  5بھائی (3 10/2  تیسری حالت: کل مال کا چھٹا حصہ دونوں صورتوں،یعنی مقاسمت اور ثلث الباقی سے بہتر ہو۔ مثال:خاوند،ماں،دادا اور دو بھائی۔اس صورت میں فرض حصہ دو تہائی ہوتا ہے، نیز بھائیوں کی تعداد دادے سے زیادہ ہوتی ہے اگرچہ ایک بہن ہی کا اضافہ کیوں نہ ہو۔اس حالت میں مال کے چھٹے حصے کی تعیین کی وجہ یہ ہے کہ خاوند کو نصف اور ماں کو چھٹا حصہ دینے کے بعد دادے اور بھائیوں کے لیے مجموعی طور پر دو حصے بچتے ہیں۔یہاں