کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 208
اور ايك سے زیادہ ہونے کی صورت میں ارشاد الٰہی یہ ہے: "فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ " "اور اگر اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں۔"[1] یاد رہے کہ جمہور کے ہاں"کلالہ شخص وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو اورباپ بھی موجود نہ ہوتو گویا کہ اخیافیوں کے لیے میراث لینے کی یہ شرط ہوئی کہ میت کی اولاد اور باپ نہ ہو۔یہ بھی یاد رہے کہ اولاد سے مراد مذکر ومؤنث دونوں ہیں۔اسی طرح والد سے مرادباپ دادا ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ " "اور اگر اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں۔" [2] اس فرمان میں دلیل ہے کہ بھائیوں کو بہنوں پر حصے میں ترجیح نہ ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ترکہ کے بارے میں سب کی شراکت بیان کی ہے اور شراکت کا اطلاق مساوات کا متقاضی ہے۔ شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ محض ایک عورت(والدہ) کی قرابت کی بنیاد پر وارث ہورہے ہیں اور یہ قرابت ان کے مذکر ومؤنث میں برابر ہے،لہذا حصے میں ترجیح کا کوئی معنی نہیں بخلاف باپ کی قرابت کے۔ 2۔ یہ سب ماں کی موجودگی میں اپنا مقررہ حصہ لیتے ہیں جس کے واسطے سے ان کی میت سے قرابت ہے اوریہ بات قاعدہ عامہ کے خلاف ہے۔قاعدہ عامہ یہ ہے کہ جب کوئی کسی واسطے سے میت سے تعلق رکھتاہے تووہ اس واسطے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتا جیسےنواسا۔ 3۔ یہ جس کے واسطے سے حصہ لیتے ہیں اس کا حصہ کم کردیتے ہیں،یعنی ان کی وجہ سے ماں کاحصہ تہائی سے کم ہوکر چھٹا رہ جاتاہے اور یہ اس قاعدہ عامہ کے خلاف ہے جس میں ہے کہ واسطے کے ہوتے ہوئے وارث کو کچھ نہیں ملتا۔واضح رہے دو یا زیادہ بھائی بہن ماں کا حصہ کم کرتے ہیں۔ایک بھائی ہویا ایک بہن وہ ماں کے حصے پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ 4۔ یہ جس واسطے سے میت کے قرابت دار بنتے ہیں اس کی موجودگی میں وارث بنتے ہیں،یعنی وہ اپنی ماں کے ساتھ وارث ہوں گے جس کے واسطے سے وہ میت کے قریبی ہوئے ہیں۔ان کے سوا دوسرے وارث اپنے رشتے دار کے ہوتے ہوئے وارث نہیں ہوتے، جیسے پوتا میت کے بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں بنتا۔اور اسی مسئلہ میں دادی اور دادے کی ماں بھی شریک ہے کیونکہ وہ بھی اپنے بیٹے کی وجہ سے میت کی رشتہ دار بنتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ واسطہ
[1] ۔النساء:4/12۔ [2] ۔النساء:4/12۔