کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 207
ہے۔(تاکہ دوثلث مکمل ہو) جبکہ باقی ترکہ(ایک تہائی) بہن کا ہے۔"[1] اس روایت سے واضح ہواکہ جب بیٹی اور پوتی اپنا مقرر حصہ وصول کرلیں گی تو باقی ترکہ عصبہ کی حیثیت سے بہن کو ملے گا۔ (1)۔ایک اخیافی(مادری) بھائی ہو یا ایک اخیافی بہن تو اس کا حصہ چھٹا ہے ۔اگر ایک سے زیادہ ہوں تو ان کا مجموعی حصہ ایک تہائی ہے جو مذکر ومؤنث میں برابر تقسیم ہوگا۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے: "وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ " " جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو(اصول وفروع نہ ہو)اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہےاور اگر اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں۔"[2] علمائے کرام کااجماع ہے کہ اس آیت میں اخیافی بھائی بہن کا بیان ہے،نیز سیدنا ابن مسعود اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کی قراءت بھی یوں ہے: " وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ مِنْ أُمٍّ " علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہی رائے دلالت قرآن کی رو سے قرین قیاس ہے کہ صورت مذکورہ میں مذکر ومؤنث برابرہوں۔ (2)۔اخیافی بھائی بہن چھٹا حصہ تب لیتے ہیں جب ان میں تین شرطیں پائی جاتی ہیں: 1۔ وارث اولاد(فرع) موجود نہ ہو۔2۔میت کا باپ دادا وغیرہ(اصول) نہ ہو۔ 3۔اخیافی بھائی یا بہن ایک ہو۔ (3)۔اخیافیوں کاتہائی ترکہ کا مستحق ہونادرج ذیل تین شرائط کے ساتھ ہے: 1۔ اخیافی بھائی یااخیافی بہنیں دویادو سے زیادہ ہوں۔مرد ہوں یاعورتیں یا دونوں ہوں۔ 2۔ وارث اولاد یا بیٹے کی اولاد موجود نہ ہو۔ 3۔ میت کا باپ دادا نہ ہو۔ اخیافی بھائی بہنوں کےدرج ذیل خصوصی احکام ہیں: 1۔ مذکر اور مؤنث تقسیم میں برابر برابر حصہ لیتے ہیں،یعنی ان میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ایک ہونے کی صورت میں فرمان الٰہی یہ ہے: "وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ " "اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو(اس کا باپ بیٹا نہ ہو)اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے۔"[3]
[1] ۔صحیح البخاری الفرائض، باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ ،حدیث 6736۔ [2] ۔النساء:4/12۔ [3] ۔النساء:4/12۔