کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 203
مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ " "آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے۔ اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو، پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے مال کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے حصہ مثل دو عورتوں کے ہے۔ "[1] اور اخیافی بہنوں کی میراث کا ذکر شروع سورت میں ان الفاظ میں فرمایا: "وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ " ’’ اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو(اس کا باپ بیٹا نہ ہو)اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہےاور اگر اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں۔‘‘ [2] (3)۔سگی بہن نصف ترکہ کی حقدار ہے جب اس میں درج ذیل چارشرائط جمع ہوں: 1۔ اس کے ساتھ عاصب،یعنی اس کا سگا بھائی نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ" ’’ اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے مثل دو عورتوں کے حصہ ہے۔‘‘ [3] 2۔ وہ اکیلی ہو اس کے ساتھ کوئی دوسری سگی بہن شریک نہ ہو۔ارشاد الٰہی ہے: "إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ " "اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کی اولاد نہ ہو، پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔"[4]
[1] ۔ النساء:4/176۔ [2] ۔النساء:4/12۔ [3] النساء:4/176۔ [4] ۔النساء 4/176۔