کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 201
(1)۔جب دو یا زیادہ بیٹیاں ہوں تو وہ دو شرطوں کے ساتھ دوتہائی کی حقدار ہیں: 1۔ دو یا دو سے زیادہ ہوں۔ 2۔ کوئی عاصب نہ ہو اور وہ میت کا صلبی بیٹا ہے۔ درج بالا دونوں صورتوں کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ"  "اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیاده ہوں تو انہیں مال کا دو تہائی ملے گا۔ "[1] اللہ کے فرمان:(لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ) سے بیٹیوں کی دو تہائی وراثت کے لیے کسی عصبے کا نہ ہونا شرط معلوم ہوتاہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فرمان:( فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ) سے معلوم ہوتا ہے کہ دو یا زیادہ لڑکیاں ہونا شرط ہے۔ کلمات آیت:(فَوْقَ اثْنَتَيْنِ) کے ظاہری معنی یہ معلوم ہوتے ہیں کہ دو تہائی حصہ دو سے زیادہ بیٹیوں کا ہے دو کا نہیں جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مسلک ہے لیکن جمہور کا مسلک یہ ہے کہ دو بیٹیوں کا حصہ بھی دو تہائی ہے،چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دونوں بیٹیوں کو ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اورعرض کی:اے اللہ کے رسول! یہ سعد کی بیٹیاں ہیں جو غزوۂ احد میں آپ کے ساتھ شہید ہوگئے۔اب ان(بیٹیوں) کے چچا نے سارامال خود ہی سمیٹ لیا ہے۔مال کے بغیر ان کی شادی کیسے ہوگی؟آپ نے فرمایا:"اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کوئی حکم نازل کرے گا ،پھر آیت میراث:(يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) الآیۃ نازل ہوئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کے چچا کو بلوایا اور فرمایا: "سعد رضی اللہ عنہ کی ان دونوں بیٹیوں کو ترکہ کی دو تہائی دو اور ان کی والدہ(سعد کی بیوہ) کو آٹھواں حصہ ادا کرو ، پھر جو باقی بچے گا وہ تمہارا ہے۔"[2]
[1] ۔النساء:4/11۔ [2] ۔جامع الترمذی،الفرائض، باب ماجاء فی میراث البنات،حدیث :2092 وسنن ابی داود، الفرائض باب ماجاء فی میراث الصلب حدیث: 2891،2892۔وسنن ابن ماجہ،الفرائض ،باب فرائض الصلب،حدیث :2720،ومسند احمد:3/352۔