کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 195
باپ یا دادا کو ذی فرض اور عصبہ دونوں حیثیتوں سے حصہ ملے گا ۔ذی فرض کی حیثیت سے چھٹا اور مزید عصبہ کی حیثیت سے اصحاب الفرائض سے بچاہوا مال مل جاتا ہے بشرطیکہ میت کی صرف مونث اولاد، یعنی بیٹی یا پوتی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ" "اصحاب الفرائض کوان کے حصے اداکرو۔ پھر جومال بچ جائے وہ قریبی مرد(عصبہ) کو دو۔"[1] واضح رہے بیٹے اور پوتے کے بعد باپ ہی میت کے قریب ترین ہے۔ مذکورہ بیان سے معلوم ہوا کہ باپ کی تین حالتیں ہیں:(1)میت کے بیٹے یا پوتے کی موجودگی میں صرف صاحب فرض ہو گا۔(2)میت کے بیٹے یا پوتے کے نہ ہونے کی حالت میں صرف عصبہ ہو گا۔(3) صاحب فرض اور عصبہ ہو گا جبکہ میت کی اولاد میں بیٹی یا پوتی ہو۔ مذکورہ تین صورتوں میں داداباپ کی طرح ہے جبکہ باپ زندہ نہ ہو۔نصوص شرعیہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔ دادا کے باب میں ایک چوتھی اضافی حالت بھی ہے،وہ یہ کہ جب دادا وارث بن رہا ہو اور اس کے ساتھ میت کے عینی (سگے) یا علاتی (پدری) بھائی یا بہنیں ہوں تو دادا انھیں محروم کردے گا جیسا کہ باپ انھیں محروم کر دیتا ہے یا دادا ایک بھائی کے برابر حصہ لے گا ۔ اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ علماء کی ایک جماعت کی یہ رائے ہے کہ دادا بھائی کے برابرحصہ لے گا کیونکہ دونوں باپ کے واسطے سے میت کی قرابت میں برابر ہیں، دادا باپ کا باپ ہے جب کہ بھائی باپ کے بیٹے ہیں ،لہٰذا میراث میں بھی سب برابر ہوں گے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سیدنا علی، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کی یہی رائے ہے۔ ائمہ کرام میں سے امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد ،امام ابو یوسف اور امام محمد شیبانی رحمۃ اللہ علیہم کی بھی یہی رائے ہے۔ ان حضرات نے مختلف دلائل توجیہات اور قیاسات سے استدلال کیا ہے جو کتب مطولہ میں موجود ہیں۔ علمائےکرام کےدوسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ باپ کی طرح دادا بھی بھائی بہنوں کو ترکہ سے محروم کر دیتا ہے۔ یہ رائے سیدنا ابو بکر صدیق ، سیدنا ابن عباس ،سیدنا ابن زبیر ،سیدنا عثمان ،سیدہ عائشہ ، سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم کی ہے۔امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک روایت اسی کی تائید میں ملتی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، امام ابن قیم اور شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی مسلک ہے۔ اس مسلک کی تائید میں
[1] ۔صحیح البخاری،الفرائض باب میراث الولد مع ابیہ وامہ حدیث6732۔وصحیح مسلم الفرائض باب الحقوالفرائض باھلھا ۔۔۔۔حدیث 1615۔