کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 194
بیوی(ایک ہو یا زیادہ) کے لیے ترکہ کا چوتھائی حصہ ہے بشرطیکہ فوت شدہ شوہر کی اولاد یا اس کے بیٹے کی اولاد نہ ہواور وہ آٹھویں حصے کی حقدار ہے جب کہ اس کے فوت شدہ خاوند کی اپنی صلبی اولاد ہو یا بیٹے کی اولادہو۔[1] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ" "اور جو(ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو۔اور اگر تمہاری اولاد ہو تو انھیں تمہارےترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔"[2] باپ اور دادا کی میراث کا بیان میت کا باپ وارث ہو تو دادا ترکہ سے محروم ہوجاتا ہے۔ باپ ہو یا دادا ،ذی فرض کی حیثیت سے اسے صرف چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ میت کی مذکر اولاد ہو(خواہ مونث اولاد ہو یا نہ ہو) جیسے بیٹا اور پوتا وغیرہ ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ " ’’اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہےاگر اس (میت ) کی اولاد ہو۔‘‘ [3] باپ ہو یا دادا اسے صرف عصبہ کی حیثیت سے باقی ترکہ ملے گا بشرطیکہ میت کی اولاد(بیٹا ،بیٹی ،پوتا اور پوتی ) نہ ہو۔ ارشاد الٰہی ہے: "فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ" "اور اگرمیت کے لیے اولادنہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے۔"[4] اس آیت میں میت کے ترکہ کا وارث والدین کو قراردیا، پھر ماں کا حصہ (ایک تہائی) مقرر کر دیا جبکہ باپ کا حصہ مقرر نہیں کیا، لہٰذا ثابت ہوا کہ باپ عصبہ کی حیثیت سے باقی سارا ترکہ لے گا۔
[1] ۔خاوند کی اولاد موجود ہ بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے جو زندہ ہویا فوت ہوگئی ہو۔(صارم) [2] ۔ النساء:4/11۔ [3] ۔النساء:4/11۔ [4] ۔النساء:4/11۔