کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 192
)2)۔ماں،دادی اور نانی: ارشاد الٰہی ہے: "فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ " ’’اور اگر اولادنہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے۔ ہاں ،اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا (حصہ) ہے۔‘‘[1] سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لِلْجَدَّةِ السُّدُسَ إذَا لَمْ تَكُنْ دُونَهَا أُمٌّ " "دادی ،نانی کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے بشرطیکہ میت کی ماں زندہ نہ ہو۔"[2] (3)۔عینی بہن ،علاتی بہن اور اخیافی بہن :ارشاد الٰہی ہے: "وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ " ’’اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو(اس کا باپ بیٹا نہ ہو)اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘[3] نیز فرمان الٰہی ہے: " إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ " " اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لیے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کی اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔ "[4] (4)۔بیوی:ارشاد الٰہی ہے: "وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ" "اور جو(ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو۔"[5] (5)۔آزاد کرنے والی عورت : فرمان نبوی ہے: "فإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ" "ولاء کا حقدار وہی ہے جو آزاد کرے۔"[6]
[1] ۔ النساء:4/11۔ [2] ۔سنن ابی داؤد الفرائض باب فی الحدۃ حدیث:2895۔ [3] ۔النساء:4/12۔ [4] ۔ النساء:4/176۔ [5] ۔ النساء:4/12۔ [6] ۔صحیح البخای الزکاۃ باب الصدقۃ علی موالی ازواج النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم حدیث 1493۔وصحیح مسلم العتق باب بیان ان الولاء لمن اعتق حدیث1504۔