کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 191
’’اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو(اس کا باپ بیٹا نہ ہو)اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘ [1] (4)۔اسی طرح عینی اور علاتی بھتیجا بھی وارث ہے ،البتہ اخیافی بھتیجا وارث نہیں ہوتا کیونکہ ذوی الارحام میں شامل ہے۔ (5)۔عینی اور علاتی چچا اور ان کے بیٹے وغیرہ نیچے تک۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ" "اصحاب الفروض کوان کے حصے دو۔ پھر جو بچ جائے وہ قریبی مرد(عصبہ) کو دو۔"[2] (6)۔خاوند:ارشاد الٰہی ہے: "وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ " "تمہاری بیویاں جوکچھ چھوڑ کر مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھا حصہ تمہارا ہے۔"[3] (7)۔صاحب ولاءآزاد کرنے والا یا اس کے عصبات آزاد کردہ کے وارث ہیں۔ ارشاد نبوی ہے: "الْوَلَاءُ لُحْمَةٌ كَلُحْمَةِ النَّسَبِ""ولاءبھی نسب کی طرح کا ایک تعلق ہے۔"[4] نیز فرمایا: "فإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ""ولاء کا حقدار وہ ہے جو آزاد کرنے والا ہے۔"[5] ورثاء عورتیں درج ذیل ہیں: (1)۔بیٹی اور بیٹے کی بیٹی اگرچہ بیٹا نیچے تک ہو۔ فرمان الٰہی ہے: "يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ " "اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیاده ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے"[6]
[1] ۔النساء:4/12۔ [2] ۔صحیح البخاری،الفرائض باب میراث الولد ایہ وامہ ، حدیث6732۔وصحیح مسلم، الفرائض، باب الحقوالفرائض با ھلھا فما بقی فلاولیٰ رجل ذکر، حدیث 1615۔ [3] ۔النساء:4/12۔ [4] ۔صحیح ابن حبان (الاحسان ): 7/220،حدیث: 4929،والمستدرک للحاکم: 4/379۔حدیث 7990۔7991۔ [5] ۔صحیح البخای الزکاۃ باب الصدقۃ علی مولیٰ ازواج النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم حدیث 1493۔وصحیح مسلم العتق باب بیان ان الولاء لمن اعتق حدیث1504۔ [6] ۔النساء:4/11۔