کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 183
تمھیں اجازت دیتا ہوں کہ تم جسے چاہو وصی بنالو۔" جب کسی پر مالی وصیت کے نفاذ کی ذمے داری ڈالی جائے تو وہ مال واضح اور متعین ہونا چاہیے تاکہ وصی اس کی اچھی طرح حفاظت و نگرانی اور اس میں تصرف کر سکے۔ جس کام کی وصیت کی گئی ہے وہ ایسا ہونا چاہیے جو موصی کے لیے کرنا جائز ہو،مثلاً: موصی کے قرض کی ادائیگی کرنا ،تہائی مال کا تقسیم کرنا یا موصی کے بچوں کی نگہداشت کرنا وغیرہ ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وصی بغیر اجازت شے میں تصرف کا مجاز نہیں، لہٰذا موصی جس مال کا مالک نہیں اس میں وصی کے لیے تصرف جائز نہیں جیسے وکالت میں ہو تا ہے۔نیز موصی اصل ہے اور وصی اس کی فرع اور نائب ۔ جس کام کا اصل شخص کو اختیار نہیں اس کے نائب کو بھی اس کا اختیار نہیں ہو سکتا ، مثلاً:کسی عورت کا اپنے چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے لیے ان کے باپ کی موجودگی میں کسی کو وصی بنانا جائز نہیں کیونکہ بچوں کی سر پرستی ان کے باپ کے علاوہ اور کسی شخص پر نہیں ہوتی۔ جس چیز کی وصیت میں کسی کو وصی مقرر کیا جائے اس کی ذمے داری صرف اسی چیز تک محدود ہے۔ موصی پر دوسری چیزوں کی ذمے داری نہ ہو گی۔مثلاً: کسی نے اپنے قرضوں کی ادائیگی میں ایک شخص کو وصی مقرر کیا تو وہ موصی کی اولاد کے امور میں وصی نہ ہو گا کیونکہ وہ ایک ایسا وکیل ہے جس کے اختیارات محدود ہوتے ہیں، یعنی جن میں اجازت حاصل ہے صرف انھیں ہی نبھائے گا۔ کافر کسی مسلمان شخص کو اپنا وصی بنا سکتا ہے بشرطیکہ اس کا ترکہ مباح ہو۔ اگر غیر مباح ،یعنی شراب یا خنزیر وغیرہ حرام اشیاء پر اسے وصی بنایا گیا تو درست نہیں بلکہ اسے انکار کر دینا چاہیے کیونکہ ایسی ذمے داری قبول کرنا مسلمان کے لیے شرعاً جائز نہیں۔ اگر موصی نے اپنے وصی سے کہا کہ میرے ترکہ کا ایک تہائی حصہ جہاں چاہو خرچ کر دینا تو وصی کے لیے جائز نہیں کہ اس میں سے کچھ اپنے لیے رکھ لے کیونکہ اس کی اسے اجازت نہیں دی گئی، نیز یہ بھی جائز نہیں کہ وہ مال اپنی اولاد پر اپنے ورثاء کو دے کیونکہ ممکن ہے عام لوگ اس پر شک کریں کہ اس نے وصیت کے خلاف ذاتی مفاد حاصل کیا ہے۔ احکام وصیت میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جنگل میں فوت ہو جائے جہاں کوئی حاکم نہ ہو اور نہ کوئی وصی مقرر کیا گیا ہو تو جو مسلمان بھی مرنے والے کے پاس ہو وہ اس کے ترکہ کی تقسیم کا ذمے دار بن جائے اور وہ کام کرے جو اس کے لیے مفید ہو۔ مثلاً:بیع وغیرہ اس لیے کہ اس کی ضرورت ہے وگرنہ مال ترکہ ضائع ہو جائے گا اور مال ترکہ کی حفاظت فرض کفایہ ہے۔ اور اسی ترکہ سے میت کی تجہیز وتکفین کرے۔